باونی کے سفرانچے

یہ تحریر 2952 مرتبہ دیکھی گئی

“کاغذ کی یہ مہک ، یہ نشہ روٹھنے کو ہے

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی “

بعض مستثنیات کو چھوڑ کر یہ شعر اپنے اندر کافی حقیقت رکھتا ہے اور وہ یوں کہ سوشل میڈیا، برقی تحریروں ، ای بکس اور ڈیجیٹل لائبریریز نے کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب کی اہمیت کو ایک حد تک کم کر دیا ہے مگر یہ بات کلی سچائی کا درجہ نہیں رکھتی۔ صفحہ قرطاس پر لکھا ہوا حرف اپنی الگ سے شناخت اور لطف رکھتا ہے۔

عرفان شہود ایک نیا لکھنے والا ہے اور  ” باونی ” اس کی پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب  کو قارئین کی طرف سے اتنی پزیرائی ملی کہ صرف ایک سال کے عرصے میں اس کے دو ایڈیشن چھپ کر منصہ شہود  پر آئے اور جس جس نے اسے پڑھا اس نے اس کی تحسین کی ۔ بہت سی post printing آرا میں سے چند آرا ملاحظہ فرمائیں ۔

1۔ باونی افسانہ اور سفرنامے کے خوبصورت امتزاج کی حامل ایک منفرد کتاب ہے۔

(ڈاکٹر ابرار احمد)

2۔یہ کتاب خریدئے ، کسی سے مانگیے یا چوری کیجیے مگر اسے پڑھیے ضرور کہ ایسے نوادرات روز روز بازار کی زینت نہیں بنتے۔

(سلمان باسط)

یہ کتاب باب جنت سے چرایا ہوا پھول ہے۔میں ایک سحر میں مبتلا ہوں۔

(اقتدار جاوید)

 آرا تو بہت سی ہیں اور سب ایک سے ایک بڑھ کر ۔۔۔ان سب کا احترام مگر مجھے کہنا کچھ اپنی زباں میں۔۔۔

خالق کائینات نے اپنی مخلوق کو حکم کی بجائے  ” سیرو فی الارض ” کی نصیحت کی ہے۔یعنی اللہ کی زمین کو چل پھر کر دیکھو۔ یہ مشاہدہ عینی و بصری بھی ہو سکتا ہے اور عقلی و فکری بھی گویا اس زمین پر جہاں بصری حسن موجود ہے وہاں اس میں بے شمار اسرار بھی غبار وقت کی دبیز تہوں میں اٹے پڑے ہیں ۔جس طرح ایک ماہر آثار قدیمہ (Archaeologist)نہایت احتیاط کے ساتھ تہہ در تہہ جمے ہوئے گرد و غبار کو ہٹا کر اس میں سے آثار و شواہد کے گراں بہا خزانے دریافت کرتا ہے بالکل ایسے ہی عرفان شہود نے اپنے سفرانچوں میں زمین پر پھیلی بے صورتی کو ہٹا کر اس کی خوبصورتی اور بے پناہ حسن کو صفحہ قرطاس پر پھیلا دیا ہے ۔کسی مجسمہ ساز کا یہ قول اپنے اندر بڑی حکمت رکھتا ہے کہ خد و خال اور نقش و نگار تو پتھر کے اندر ہی موجود ہوتے ہیں میں تو بس ان پر سے فالتو پتھر ہٹا دیتا ہوں۔

اردو سفر ناموں کی تاریخ ڈیرھ پونے دو سو سالوں پر پھیلی ہوئی ہے پہلا اردو سفر نامہ محمد یوسف کمبل پوش کا سفر نامہ “عجائبات فرنگ “مانا جاتا ہے جو 1847 میں دلی سے شائع ہوا ۔۔۔پھر حسرت موہانی کے استاد منشی امیر اللہ تسلیم لکھنوی کے سفر نامے کا ذکر ملتا ہے اور ازاں بعد بہت سے سفر نامے شائع ہوئے ۔۔ان لکھنے والوں میں  سر سید ،شبلی،آزاد ، جعفر تھانیسری ، حکیم محمد سعید ، تقی عثمانی ،مختار مسعود ، مجتبی حسین ، ابن انشا ، ممتاز مفتی ،جمیل الدین عالی

،مستنصر حسین تارڑ  ، عطا الحق قاسمی  اور یونس متین  کے علاوہ اور بہت سے لوگوں کے نام شامل ہیں ۔ علاوہ ازیں سفر ناموں کا مختلف زبانوں سے اردو میں ترجمہ کاری کا سلسلہ اس سے الگ ہے مثلا ابن بطوطہ کے سفر ناموں کے تراجم رئیس احمد جعفری کے قلم سے اور ہومر کی اوڈیسی کا شاندار ترجمہ محمد سلیم الرحمن نے کیا ۔۔۔ دیکھا جائے تو  مشہور برازیلی مصنف پاہلو کوہلو کا ( The Alchemist) بھی مہم جوئی کا ایک سفر نامہ ہے جس کا ترجمہ ایک سے زیادہ بار ہوا ۔۔۔پروفیسر ظفر المحسن پیرزادہ کا اردو ترجمہ من کی دولت کے نام سے جامعہ پنجاب نے شائع کیا۔

سفر ناموں کی بہت سی قسمیں ہیں کچھ معلوماتی ہوتے ہیں تو کچھ محض تفریح طبع کے لیے لکھے جاتے ہیں ۔جن میں طبع زاد رومان پرور قصوں اور داستانوں کی بہتات ہوتی ہے ۔عرفان شہود کے سفرانچوں میں یہ گرم مصالحہ تو شاید نہ ملے  لیکن دھرتی کی بے انتہا سندرتا آنکھ کے عدسے سے باطن میں سفر کرتی ہوئی دل میں اترتی چلی جاتی ہے گویا زرد رومان کی بجائے ایک صحت مند رومانویت (Romentism ) کے بے شمار مظاہر دامن دل کو کھینچتے محسوس ہوتے ہیں نیز مصنف کا دلکش  ادبی انداز تحریر اس پر مستزاد۔ سفرانچے پرھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ یہ دنیا ایک عکس رواں ہے جس کے لیے چشم نگراں شرط ہے ۔بقول میر تقی میر

“چشم ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر”

کتاب “باونی”  (مع ضمیمہ جات و حواشی)  306 صفحات۔

ناشر : اقرا ریسرچ انسٹیٹوٹ  آف پاکستان لاہور _

انٹاریو قیمت 500 روپئے۔