بارش بھرا تھیلا

یہ تحریر 2520 مرتبہ دیکھی گئی

مسعود قمر کے بالوں کی سفیدی اس کے عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ جیسے دہکتے ہوئے کوئلے پر سفید سی راکھ کی تہہ جم جاتی ہے اس کی بالوں کی سفیدی اس کے روح کے دہکاو کے باعث ہےجس کی تپش نے اس کے بدن کو سونے کی طرح سرخ اور بالوں کو چاندی کر دیا ہے ۔
محبت کی بستی کا یہ بنجارہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) سے مصائب کا پشتارہ کمر پر اٹھائے دور دیس سویڈن جا پہنچا ۔ ہجرت کی کلفتیں اس کے جزبے کی شدت کو گہنا نہیں سکیں۔ اس کا جزبہ سچا اور اس کی روح اجلی تھی سو اس نے اپنے جزبے کو زبان دینے کے لئے شاعری کا سہارا لیا۔
جہاں تک تثری نظم کا تعلق ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ چونکہ میرا مزاج غزل کا ہے تو نظم خصوصا نثری صنف نظم مجھے ذرا کم کم ہی متاثر کرتی ہے جیسے غزل نے اپنے متنوع مضامین سے اپنے کینوس کو بے انتہا وسعت دی ہے بالکل ایسے ہی نظم نے بھی بہت سی کروٹیں بدلی ہیں۔مضامین کی رنگا رنگی کے ساتھ ساتھ اس میں ہئیت کے بھی بے شمار تجربے کیے گئے۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں نظم کا رواج اور بول بالا ہے ۔پرانے زمانے میں داستان گوئی مثنوی کی صورت میں ظہور پزیر ہوئی ازاں بعد رباعی ، مسدس ، مخمس، ترکیب بند ،ترجیح بند ، ثلاثی ، نطم معری، آزاد نظم اور نثری نظم وغیرہ کی ہئیت میں بہت کچھ لکھا گیا ۔
اردو نظم کا باقائدہ آغاز 18 ویں صدی عیسوی میں اس وقت ہوا جب( شاعر بے نظیر) نظیر اکبر آبادی نے ہندوستانی تہواروں اور بے شمار دیگر موضوعات پر مختلف ہئیتوں میں لکھی گئی نظموں کے انبار لگا دیے ۔ پھر کچھ دیر وقفہ رہا اور پھر سے بہت سے شاعر غزل کے ساتھ ساتھ نظم کی طرف راجع ہوئے ۔حالی ، شبلی ، محمد حسین آزاد نے انجمن پنجاب کے تحت موضوعاتی نظموں کا ڈول ڈالا ۔اسمعیل میرٹھی وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے “چڑیا کا بچہ” نامی نظم لکھ کر نظم معری کی ابتدا کی اور ہم وزن مصرعوں سے قافیہ ردیف کی پابندی کو ہٹا دیا ۔اگر اسی نظم کو آہنگ برقرار رکھتے ہوئے چھوٹی بڑی لائنوں میں لکھ دیا جائے تو یہی معری نظم آزاد نظم کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ پھر بڑے بڑے نظم گو شاعروں نے بھی اس صنف ادب کو اپنا لیا چنانچہ اختر الایمان، کیفی اعظمی، میرا جی، ن۔م۔راشد، فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری نے اس صنف ادب کو خوب بڑھاوا دیا ۔مجید امجد ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے نظم کی متنوع اشکال میں ہئیت کے بے شمار تجربے کئے اور ارکان کی توڑ پھوڑ اور کمی بیشی سے نظم کی نئی نئی صورتیں پیدا کیں ۔اگر غور کیا جائے تو انہی کی نظموں میں نثری نظم کے خد وخال بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
جہاں تک نثری نظم کا معاملہ ہے تو اب نئی نسل کے بہت سے لوگ اس صنف کو اپنائے ہوئے ہیں پہلے پہل جب ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے موقر ادبی رسالے اوراق میں نثری نظم شائع کی تو اس میں ردھم، رائم، عروض ، وزن ، آہنگ، بحر ، ردیف اور قافیہ وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے اسے نثر لطیف کے نام سے تعبیر کیا۔۔۔۔۔ افتخار جالب ، تبسم کاشمیری ، سعادت سعید، ابرار احمد ، عبدالرشید کے علاوہ فطرت سوہان ، سدرہ افضل اور رانا غضنفر عباس اور دیگر بہت سے شعرا نثری نظم کے فروغ کے لیے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔۔
نثری صنف نظم کے جواز اور عدم جواز کی بحث سے قطع نظر مسعود قمر کی کتاب” بارش بھرا تھیلا ” جو نثری نظموں پر مشتمل ہے اپنے نام ہی طرح اپنے مواد اور ٹریٹمنٹ کے لحاظ سے بھی ایک منفرد کتاب ہے ۔ میں جو نثری نظموں سے زیادہ متاثر ہونے والا قاری نہیں اس کتاب کے سحر میں تا دم تحریر کھویا ہوا ہوں ۔۔۔ چونکہ نثری نظم کا شاعر اپنے آپ کو بہت سی پابندیوں سے آزاد کروا لیتا ہے اس لیے اس کے فن پارے میں وفور تخیل کا ہونا از بس ضروری ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ نثری نظم کی کلی اساس خیال افروزی پر ہی استوار ہوتی ہے اس لیے خیال آفرینی اور خرد افروزی کے بغیر یہ ایک کار لا حاصل کے سوا کچھ نہیں۔
مجھے کہنے دیجئے کہ مسعود قمر نظم کا ایک منفرد شاعر ہے اس کی کتاب کے انتساب سے لے کر اس کی نظموں کے نام تک منفرد ہیں ۔چند نظموں کے نام ملاحطہ فرمائیں۔
گوند کے درخت کا طبعی موت مرنے کا خواب ۔۔۔لہروں کو گنتا مجرم۔۔۔ ان بکس میں بھیجا گیا سفید گلاب۔۔۔۔تم میرے دماغ کے دائیں کونے میں رہتی ہو۔۔۔۔ چٹخورے باز۔۔۔۔۔زنگ آلود تالے میں اگا درخت۔۔۔ہاوس آف لوسٹ لیٹرز۔۔۔حاملہ برقعے۔۔۔۔زیر ناف برف کی ڈلیاں اور محبت کی سرسوں وغیرہ۔
مسعود قمر کی نظموں کی زبان ایسی ہے کہ قاری اس میں بہتا چلا جاتا ہے اور موضوعات ایسے کہ ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں ۔مسعود قمر ایک پکا سچا اور کھرا لیفٹسٹ اور ترقی پسند ہے مگر اس کے ہاں مستعار پراپگنڈےکی سیاسی نعرہ بازی ہرگز نہیں وہ جو کچھ کہتا ہے اس میں انسانی اقدار اور ہمدردی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے ۔ مشتے از خروارے کچھ نظموں کی چند لائنیں بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔

میں
اتنا ڈرپوک ہوں
تیس سال سے ایک ہی عورت سے محبت کیے جا رہا ہوں
میں یہ سب کچھ نہ کرتا
اگر۔۔۔۔۔۔۔مجھ تنہا شخص کے پاس
کوئی اچھی کوالٹی کی تنہائی ہوتی
(تنہائی کا قحط)

میں
دفنا کے آ رہا ہوں
ابھی ابھی
اپنے سارے جسم کے اعضاء
سوائے اپنے کانوں کے
کان بضد ہیں
تمہاری خامشی کے ساتھ
دفن ہونے کو
اپنی خامشی بولو
کہ۔۔۔میں خود کو سارے کا سارا
دفن کر سکوں
کچھ دن تو زندہ رہ سکوں
(خامشی کے منتظر کان)

ہمیں کاٹنے ہیں وہ پاوں
جو
کھیلتے ہیں انسانوں کے سروں سے فٹ بال
ہمیں
اگانی ہیں اس زمین پر
محبت کی سرسوں
اور
اگانے ہیں اس زمین پہ
بہت سے انسانی رنگت کے گلاب
(محبت کی سرسوں)

کیا
موت سے پہلے
پیدائش کا ہونا ضروری ہے
پیدائش
صرف موت کا ذائقہ چکھنے کے لیے ایجاد ہوئی
ہم چٹخورے باز ہو گئے
اور پیدا ہونا بھول گئے
ہمیں موت کا اتنا چٹخارہ لگ گیا
کہ
ہم پیدا ہوئے بغیر ہی مرنے لگے
ہمیں خود کو حاملہ ہونے کے کتنے مواقع ملے
مگر چٹخوری عادت کے سبب
اب ہماری پیدائش
گندی نالیوں میں بہہ رہی ہے
(چٹخورے باز)

زیتون والی فاختہ کی تصویر
اب صرف پرانے رسالوں میں ملتی ہے
بوڑھوں نے سارے زیتون
فاختہ کے منہ سے چھین کر
راتوں کو اپنی مردانگی جگانے کے لیے کھا لیے ہیں
(حاملہ برقعے)

اور ایسی ہی منفرد اور خرد افروز 115 نظمیں۔
آخر میں چار لائنوں کی ایک نظم ۔

مجھے علم تھا
اس نے مجھے چھوڑ جانا ہے
میں نے احتیاطا
ایک عشق کا انتظام کر رکھا ہے۔
(احتیاط)

محبت کی بستی کا یہ بنجارہ شاعر “بارش بھرا تھیلا” کندھے پر اٹھائے دور دیس اپنے وطن کی یادوں سے سرشار نظموں کا امرت بکھیر رہا ہے اور اس کے تھیلے میں انسان دوستی اور محبت کے آب مقطر کے سوا کچھ نہیں۔

کتاب : بارش بھرا تھیلا
لکھائی ،چھپائی ، گیٹ اپ ، کاغذ شاندار
صفحات :253
قیمت : 500 روپئے
ناشر : سانجھ پبلیکیشنز لاہور