اک غیر یقینی صورت حال اور منٹو کا افسانہ ”اُلو کا پٹھا“

یہ تحریر 1340 مرتبہ دیکھی گئی

منٹو کے اس افسانے ”اُلو کا پٹھا“ کا مرکزی کردار قاسم ہے، قاسم کے دل میں ایک روز اک لایعنی سی خواہش جنم لیتی ہے، کہ وہ کسی کو اُلو کا پٹھا کہے، اور یہی خواہش اس کے ہاں آخر تک قائم رہتی ہے۔ اگر ہم اس افسانے کے مرکزی کردار پہ غور کریں تو معلوم یہ پڑتا ہے کہ جس سگنی فائر کا اظہار وہ کرتا ہے اس کو وہ خود ہی سگنی فائڈ نہیں کر پاتا، خیال جو کہ سگنی فائر کی صورت میں اس کے دماغ میں آ گُھسا تھا، آخر تک وہ  اس کے معانی کا ہی تعین نہیں کر پاتا، ایسے ہی کہانی کے آخر تک مرکزی کردار ایک غیر یقینی صورت حال کا شکار نظر آتا ہے، کہانی کی بُنتر پر اگر ہم مابعد جدیدیت کے تناظر میں غور کریں تو کہانی کا مرکزی کردار جس سگنی فائر کو لے کر سامنے آتا اس کے معانی کا تعین نہ کرنے پر خود ہی اس تصور کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، جس سگنی فائر کو وہ اپنے امیج میں لاتا ہے، وہ خود ہی اس صورت حال کو بدلنے پر قادر نہیں رہتا، جس سے وہ کسی کو شکار کرنا چاہا رہا ہوتا ہے لیکن آخر میں اس سے وہ خود شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر ہم اس افسانہ پر ڈی کنسٹرکشن کا اطلاق کریں تو وہ بھی آسانی سے ہو جاتا ہے کیونکہ ڈی کنسٹرکشن میں معانی واضح نہیں ہوتا، ادھر اس کہانی کے مرکزی کردار پر بھی معانی واضح نہیں ہے، دوسری طرف اگر ہم پوری کہانی پر غور کریں تو معانی کہیں بھی واضح ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

مرکزی کردار (قاسم) کی اس غیر یقینی صورت حال کے بارے میں منٹو لکھتے ہیں:

”قاسم کے دل میں اس سے پہلے کئی  بار بڑی بڑی انوکھی خواہشیں پیدا ہو چکی تھیں مگر یہ خواہشں سب سے نرالی تھی وہ بہت خوش تھا۔ رات اُس کو بڑی پیاری نیند آئی تھی۔ وہ خود کو بہت تروتازہ محسوس کر رہا تھا لیکن پھر یہ خواہش کیسے اس کے دل میں داخل ہو گئی۔ دانت صاف کرتے وقت اس نے ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا جس کے باعث اس کے مسوڑھے چھل گئے۔ دراصل وہ سوچتا رہا کہ یہ عجیب و غریب خواہش کیوں پیدا ہوئی۔ مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔“

کہانی کا مرکزی کردار خود ہی سوچتا ہے کہ آخر ایسی عجیب خواہش اس کے دل میں کیسے داخل ہوئی اور پھر اس حوالہ سے وہ کسی نتیجہ پر بھی نہیں پہنچ پاتا، تو یہ بات ایک غیر یقینی صورت حال کو واضح کرتی ہے۔ اُلو کا پٹھا، کے اظہار کی خواہش کا سگنی فائر  تو وہ سامنے لاتا ہے مگر اس کے معانی کا تعین نہیں کر پاتا اور خود ہی اس بارے میں یہ کہنے پہ مجبور ہے۔

”مان لیا کہ میرا کسی کو اُلو کا پٹھا کہنے کو جی چاہتا ہے۔۔۔۔۔مگر یہ کوئی بات تو نہ ہوئی۔۔۔۔۔میں کسی کو اُلو کا پٹھا کیوں کہوں۔۔۔۔؟میں کسی سے ناراض بھی تو نہیں ہوں۔۔۔۔۔“

کہانی کا مرکزی کردار اپنے اس سگنی فائر پر بھی کچھ واضح نہیں ہے، اور اپنی اس خواہش کو وہ خود ہی ”بالکل بیہودہ اور بے سروپا“ کہتا ہے، اور کہانی کے آخر تک وہ اپنے سگنی فائر کو جواز دینے کی کوشش کرتا ہے مگر خود ہی تمام جواز کو زائل بھی کرتا چلا جاتا ہے، اور آخر میں خود اپنی ہی پیدا کردہ غیر یقینی صورت حال سے مجبور ہو کر ایک غلطی کر بیٹھتا ہے اور جس چیز سے وہ ”دوسرے“ کو شکار کرنا چاہا رہا ہوتا ہے اس سے وہ خود شکار ہو جاتا ہے، اس منظر کو ملاحظہ کریں۔ ”لڑکی کا رنگ لال ہو گیا تھا۔ قاسم کی طرف اس نے غضبناک نگاہوں سے دیکھا اور بھینچے ہوئے لہجہ میں کہا۔”اُلو کا پٹھا۔“