اُردو اور ہم

یہ تحریر 2236 مرتبہ دیکھی گئی

اُردو زبان برصغیر میں مسلمانوں کی پہچان چلی آتی ہے۔ اُردو ہندی تنازعے کو دو قومی نظریے کی ابتدا تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بابائے قوم نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ ہمارے آئین میں بھی اردو کی اس حیثیت کا اثبات موجود ہے۔ جس کا زبانی کلامی اقرار تو ہمیشہ کیا جاتا رہا، لیکن عملاً اردو کے نفاذ کو اربابِ اختیار نے سردخانے ہی میں ڈالے رکھا۔ ہمارے افسروں اور حکمرانوں نے انگریزی میں تقریر کرنے کو اپنے لیے برتری کی علامت جانا۔ حکمرانوں کی طرزِ روش کا چونکہ معاشرے پر گہرا اثر پڑتا ہے، اس لیے ہمارے معاشرے میں اچھی اُردو بولنے اور لکھنے والوں کو کبھی وہ مقام نہیں دیا گیا جو خراب انگریزی لکھنے اور بولنے والوں کو حاصل رہا۔ عدلیہ کی وساطت سے بھی اردو کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ طے پایا کہ ہمارے اہلِ اقتدار اپنی رسمی تقاریر اردو میں کریں گے اور دفتری زبان کے طور پر اردو کے عملی نفاذ میں بھی مزید تاخیر سے کام نہیں لیا جائے گا۔ تاہم اس عدالتی فیصلے کا بھی کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا نفاذِ اردو کے سلسلے میں ایک عذرِ لنگ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اردو میں ضروری اصطلاحات موجود نہیں ہیں۔ یہ عذر صرف لوگوں کی لا علمی کے سبب قبول کر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایک عرصے سے اُردو کے اہلِ علم وضعِ اصطلاحات کا کام کرتے چلے آئے ہیں۔ جامعہ عثمانیہ دکن سے لے کر مقتدرہ قومی زبان کے قیام تک یہ سلسلہ بڑی محنت سے جاری رکھا گیا اور اردو میں دفتری و علمی اصطلاحات کا ایک وسیع ذخیرہ مہیا ہو چکا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اردو کی اصطلاحات مشکل اور نامانوس ہوتی ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ سات سمندر پار سے آئی ہوئی ایک اجنبی زبان کی مشکل سے مشکل اصطلاحات کو تو ہم آسان اور مانوس سمجھنے لگے ہیں اور اپنی زبان سے اس قدر بیگانگی ہو چکی ہے کہ وہ ہمیں مشکل اور نامانوس لگنے لگی ہے۔ یہ چیز خود اس بات کی دلیل ہے کہ اجنبی سے اجنبی الفاظ کثرتِ استعمال سے رواں اور آسان ہوجاتے ہیں۔ تو پھر بھلا اپنی ہی زبان کو کیوں نہ کثرت سے استعمال کیا جائے کہ وہی ہمارے لیے رواں اور آسان ہو جائے۔ اُردو کی حمایت کو انگریزی کی مخالفت تصور کرنا بھی خلافِ حقیقت ہے۔ انگریزی کو بطور ایک زبان کے سیکھنا اور اس میں مہارت حاصل کرنا نہایت مستحسن ہے اور ہماری قوم کو یقیناً ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو غیر ملکی زبانوں مثلاً فرانسیسی، جرمن، روسی، چینی اور انگریزی میں مہارت رکھتے ہوں۔ انگریزی چونکہ، برطانوی استعمار کے باعث ہمارے لیے زیادہ مانوس چلی آتی ہے اس لیے ہم اسے آسانی کے ساتھ دنیا سے مربوط رکھنے والا ایک دریچہ بنا سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انگریزی پر توجہ دینا کسی طرح بھی اُردو کے نفاذ سے متصادم نہیں۔ تاہم انگریزی کو اپنی سرکاری، گفتاری اور دفتری زبان بنا لینا احساسِ کمتری کی دلیل ہے۔ دنیا کی کوئی زندہ قوم اپنی زبان کے بارے میں ایسا رویہ روا نہیں رکھتی۔ سننے میں آیا ہے کہ چینی رہنما چو این لائی بہت اچھی انگریزی جانتے تھے مگر اپنی تمام رسمی گفتگو اور خطابات کے لیے چینی زبان ہی استعمال کرتے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ جب وہ براہِ راست انگریزی میں بات کر سکتے ہیں تو درمیان میں ترجمان کھڑا کرنے کا تکلف کیا ضروری ہے؟ انہوں نے اس کے جواب میں جو کچھ کہا وہ قومی حمیت کی ایک روشن مثال ہے۔ انہوں نے کہا ”چین گونگا نہیں“ ایسی ہی ایک روایت فرانسیسی رہنما ڈیگال کے بارے میں مشہور ہے۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ انگریزی جاننے کے باوجود وہ فرانسیسی میں بات کر کے ترجمان کا سہارا کیوں لیتے ہیں۔ تو انہوں نے اپنی قومی زبان پر فخر کے علاوہ ایک نکتہ اور بھی بیان کیا۔ وہ یہ کہ مجھے سیاسی اعتبار سے بھی اس طریقِ کار سے فائدہ ہوتا ہے۔ جب دوسرا شخص انگریزی میں بات کرتا ہے تو اس کی بات براہِ راست میری سمجھ میں آ جاتی ہے اور جتنی دیر میں اس کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا جاتا ہے، وہ وقفہ مجھے غور کرنے کے لیے مل جاتا ہے کہ مجھے اس بات کا کیا جواب دینا چاہیے۔ اردو کے مزاج میں بلا کی لچک ہے اور اس میںیہ گنجائش موجود ہے کہ وہ انگریزی سمیت مختلف زبانوں کے بہت سے الفاظ کو اپنا حصہ بنا لے۔ چنانچہ ”کالج، یونیورسٹی، بس، فیل، پاس، ریڈیو، ٹیلی ویژن، تھرمامیٹر، ریلوے اسٹیشن‘ جیسے ہزاروں الفاظ اب اردو میں جذب ہوچکے ہیں۔ایسے الفاظ کو زبردستی نکال پھیکنا قطعاً غیر ضروری ہے۔تاہم جن مطالب کے لیے مانوس اور بنے ہوئے الفاظ موجود ہیں ان کی جگہ انگریزی الفاظ کو ٹھونسنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ مثلاً کتاب کو بک، میز کو ٹیبل، کرسی کو چیئر، دروازے کو ڈور رنگ کو کلر اور کالا، سفید لال وغیرہ رنگوں کو ’بلیک، وائیٹ‘ اور ریڈ کہنے کا کوئی جواز نہیں۔