اوراق گم گشتہ

یہ تحریر 417 مرتبہ دیکھی گئی

مسعود منور :علم و فضل کا کوہ گراں/

ابھی چند دن پہلے میں نےاپنی اوائل عمر کی ایک تصویر فیس بک پر لگائی تھی- اس تصویر پر برادرم مسعودمنور نے یوں تبصرہ کیا تھا۔

ہےمظفر جوان جوں کا توں ۔۔

وہی مسکان اور وہی چہرا ۔۔

اب بھی ممکن ہےاس کےسر پہ بندھے

ایک نئے عشق کا حسیں سہرا۔۔

اس محبت بھرے تبصرے پر میں نے یہ جواب اُن کی نذر کیا تھا؀

وقت یری شباب کی باتیں ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں یہ سب تو ہوا گزشت و رفت لیکن میری پوسٹ پر مسعود منور کا یہ تبصرہ مجھے نصف صدی قبل ستر کی دھائی میں لے گیا جب برادرم مسعودمنور لاہور کی گلیوں کی رونق اور میرے روزمرہ کے ساتھی ہوا کرتے تھے-اُس دور کی کہانیوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے کچھ کہی کچھ ان کہی رہ کر بھی امر ہیں مگر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ ان سب کہانیوں کے ہیرو مسعود منور ہی ہیں-

نوے کی دھائی میں ادبی پروگراموں کے سلسلےمیں میرا ایک سے زیادہ بار ناروے جانا ہوا توہرمرتبہ اوسلو میں مسعود منور سے طویل ملاقاتیں ہوئیں اُن کی ترقی خوشحالی اور خوش بختی نے مجھے بہت مسرور و متاثر کیا-مسعود عالم ،فاضل اور جوگی تو تھے ہی اب انہوں نے اپنی کہانیاں پیچھے چھوڑ کر بن باس لے لیا ہے، تصوف کی جانب مائل ہوکر سمندروں کے اطراف میں جا بسے ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں؀

میں گھر سے دوراطاق بدن میں رہتا ہوں

سواد ہجر کے باب کہن میں رہتا ہوں

کہیں تورہنا ہےجب تک ملاہے اذن قیام

سوحرف وصوت کےشہر سخن میں رہتا ہوں

میں عکس ہوں ترے پیراہن گل و مل کا

میں ایک رنگ ہوں برگ سمن میں رہتا ہوں

کبھی ہوں زلف کی ژولیدگی میں وارفتہ

کبھی میں تیری جبیں کی شکن میں رہتاہوں

مثال بوسۂ دوشیزگان شہر جمال

ترے لبوں کے گلابی چمن میں رہتا ہوں

میان چشم زدن ڈھونڈھ مجھ ُکو پلکوں میں

کہیں نہیں ہوں طلسم زدن میں رہتاہوں

جہاں سے تو نے نکالا مرے اب و جد کو میں

آج بھی اسی باغ عدن میں رہتاہوں

وحی ہوا ہوں غزال صفا کے نافہ میں

میں مشک لا ہوں ہوائےختن میں رہتاہوں

ہے پنجند کی گزر گاہ میرا نصف خیال

میں نصف وادیٔ گنگ وجمن میں رہتاہوں

زمین میرے لیے سیرگاہ ہے مسعود

میں شمس زاد ہوں نیلے گگن میں رہتاہوں

مگر میں بسمل صابری کے شعرکاسہارا لیتے ہوئےاُن کو یہی کہوں :

وہ عکس بن کے میری چشم تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے