امریکا میں نوے دن

یہ تحریر 465 مرتبہ دیکھی گئی

آٹھواں صفحہ:

آج لاہور بہت یاد آ رہا تھاتو سوچا کہ استاد دامن کی اس نظم سے ہی بات شروع کی جائے:

دَس کھاں شہر لہور اندر،

کنے بُوہے تے کنِیاں بارِیاں نیں

دَساں میں شہر لہور اندر،

لکھاں بُوہے تے لکھاں ای بارِیاں نیں

جنِہاں اِٹاں تے دھر گئے پیر عاشق،

اوہی او ٹٹُیاں تے باقی سارِیاں نیں!

جنہاں کھُوہیاں توں بھرنُ معشوق پانی،

اوہی او مٹِھیاں تے باقی کھارِیاں نیں!

آئیے پھر امریکہ کی طرف۔

لاری اڈے پر ٹرک ہوٹل؛

اب تو سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، ہمارے بچپن میں اشتہار بازی دیواروں پرہوتی تھی۔اشتہاروں میں اس قدر سنسنی خیزی ہوتی تھی کہ توبہ ہی بھلی ۔ایک مثال : “لاہور میں خدا” موٹے موٹے حروف میں پہلی لائن لکھی ہوتی تھی، قریب جاکر جب اشتہار پڑھتے تو باریک حروف میں لکھا ہوتا تھا “کے فضل وکرم سے ایک نیا جنرل سٹور کھل گیا ہے” اس سنسنی خیزی کے بعد پورا اشتہار ہوتا تھا۔میں نے بھی آج عنوان ہی ایسا بنایا ہے ورنہ کہاں امریکہ کہاں لاری اڈہ اور کہاں ٹرک ہوٹل ! مگرحقیقت یہ ہے کہ کل ہم نے لاری اڈے پر پاکستانی ٹرک ہوٹل میں مزیدارکھانوں اورکڑک چائے کے مز ے اڑائے یہ ٹرک ہوٹل واشنگٹن سٹیٹ کے نواح میں۔ ہے جو کہیں بھی سڑک کنارے کھڑا ہوجاتاہے اور مزے مزے کے پاکستانی کھانے فراہم کرتا ہے۔یہ ایک پاکستانی جوڑے کی اختراع ہے  حسن کی معلومات کے مطابق یہ دونوں میاں بیوی  اچھے پڑھے لکھے ہیں ،ایک بڑی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں اور شام کو اس ہوٹل کے ذریعے سے ماشآلللہ خوب ڈالر بناتے ہیں کیونکہ غیر ملکوں میں مقیم پاکستانی اپنی زبان، دیسی  مناظر اور دیسی لذت کے لئے ترستے ہیں۔  

دل دل پاکستان:

کل یوم پاکستان تھا اور سیاٹل کا  بڑا پارک پاکستانی پرچموں سے سجا ہوا تھا ، دل دل پاکستان کے ترانے گونج رہے تھے۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف گریٹ سیاٹل نے تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں لوکل سٹی میئر کےعلاوہ پاکستانی سفارتخانے کے کونسلر بھی شریک ہوئے۔صبح سے شام تک ہر جانب پاکستان پاکستان ہوتا رہا، دل خوش ہوگیا۔اس تقریب میں معروف پاکستانی فنکارہ کومل رضوی نے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا اورمحفل کو چار چاند لگا دئے۔تقریب میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ مقامی امریکی شہریوں اور خصوصی طور پر بھارتی سکھ برادری نے یکجہتی کے اظہار کے لئے شرکت کی ایک سکھ فنکار نے تو دمادم مست قلندر گا کر محفل کو گرما دیا۔

میدان میں ہر طرف چہار جانب طرح طرح کے سٹال سجے ہوئے تھے جہاں پاکستانی مصنوعات فروخت کی جا رہی تھیں، پاکستانی کھانوں کےکئی سٹال بھی تھے جہاں بہت رش تھا۔یوم آزادی کے حوالے سے معروف شاعر پروفیسر جیلانی  کامران کی نظم کا یہ دعائیہ بند یہاں مناسب ہوگا؀ 

میں نے گندم کے پودے سے دانہ

ابر سے بوند پانی کی

قدموں سے مٹی کی بو

اور دل سے جدائی طلب کی

اور دعا میں کہا

خشکیوں پر یہی دن رہے

اور تری پر یہی چاند چمکے

میرا ملک نسلوں کی خوشبو میں زندہ رہے

میں رہوں، نہ رہوں۔

 امریکہ میں جو بات مجھے بہت پسند آئی وہ یہاں کا امن وامان ،لوگوں کی خوش باشی اور خوش اخلاقی ہے۔یہاں آپ کو  ہر چہرہ کھلا ہوا اور متبسم نظر آئے گا۔ پاس سے گزرنے والا ہر شخص یا تو ہیلو ہائے کہے گا  یا کم از  کم از کم  تبسم زیر لب سے آپ کا استقبال کرے گا۔ یہی زندہ  قوموں کی نشانیاں ہیں۔احادیث میں تواس عمل کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے: تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ/ یعنی اپنے بھائی کے چہرے کو دیکھ کر مسکرانا صدقہ ہے(سنن الترمذي) 

کاش ہم بھی ایسے ہو جائیں!————