آدابِ محفل

یہ تحریر 2406 مرتبہ دیکھی گئی

بھلے وقتوں میں محفل کے بس تین عناصر ہوا کرتے تھے۔ صدر، ناظم اور سامعین۔ صدر کو اس گل دستے کی بندش کی گیاہ سمجھیں۔ آداب محفل کے مطابق کوئی بھی کسی سے براہِ راست مخاطب نہیں ہو سکتا تھا۔ جسے کچھ کہنا ہے ”جنابِ صدر“ سے مخاطب ہو کر کہے۔ ناظم صدر سے اجازت لے کر کارروائی کا آغاز کرتا تھا۔ ایک ایک کر کے شرکاءکو بلاتا تھا۔ اچھا ناظم جانتا تھا کہ ایک شخص کی گفتگو کے بعد کتنے ثانیوں کا وقفہ دینا ہے۔ جس میں سامعین اس گفتگو کو جذب کر چکیں گے اور نئے مقرر کو سننے کے لئے تیار ہوں گے۔ پھر نظام ایک آدھ جملہ جانے والے کی شان میں کہتا تھا اور وہ ایک جملے آنے والے کے تعارف میں۔ یہ وہ بھی جانتا تھا کہ وہ ناظم ہے، مقرر نہیں۔ چنانچہ اس کی اپنی بات کبھی چند جملوں سے تجاوز نہیں کرتی تھی۔ مگر یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب سب کچھ ”روحِ محفل“ کے لئے کیا جاتا تھا۔ محفل آرائی کو وسیلہ ظفر بنانا ابھی کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا۔ پھر آہستہ آہستہ معاشرے کے تاروپود میں مفاد پرستی، ہوشیاری، چاپلوسی اور تشہیر پسندی شامل ہوتی گئی۔ صدارت کے لئے اب ان لوگوں کا انتخاب ہونے لگا، جنہیں آج محفل میں بلا کر کل ان سے کوئی کام نکالا جا سکے۔ پھر عقلِ عیار نے اور پر پرزے نکالے، خیال آیا کہ بس ایک صدر پر ہی کیوں اکتفا کیا جائے۔ ایک ہی تیر سے دو شکار کیوں نہ کئے جائیں۔ اس طرح ”مہمان خصوصی“ کا ایک نیا منصب ایجاد ہوا۔ جو محفل کی ساخت کی بنیادی تکوین میں کہیں تھا ہی نہیں۔ مگر اب یہ قلم نہ صرف لگ گئی بلکہ خوب نشوونما پانے لگی۔ دو دو چار چار مہمانانِ خصوصی ہونے لگے۔ پھر ان کے نئے نئے نام ایجاد ہوئے۔ کوئی ’مہمانِ خصوصی‘ ہے، کوئی ’مہمانِ اعزاز‘ اور کسی کی خصوصی آمد کا اعلان ہو رہا ہے۔ یوں بھی ہونے لگا کہ مہمانِ خصوصی کی اہمیت صدر پر فائق سمجھی جا رہی ہے اور صدر بیچارہ ایک عضوِ معطل کی طرح کرسی نشین ہے۔ جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ بلکہ یوں بھی ہوا کہ ایک صدر کی جگہ منصہ صدارت نے لے لی۔ لیجئے! ایک محفل کے دس دس صدر قطار باندھے بیٹھے ہیں اور بناظم ایک ایک کا نام بالقابہ لے کر اس کے نفس کی تسکین کر رہا ہے۔ بلکہ سامعین میں بیٹھے ہوئے مقتدر لوگوں کی شان میں بھی کچھ قصیدہ گوئی کرتا جاتا ہے۔ یوں ناظم کی اپنی گفتگو کا تناسب بسا اوقات مقررین سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ تملق کا یہ شیوہ دیمک کی مثال ہے۔ ایک بار لگ جائے تو پھر رکتی نہیں۔ سو، محفلوں کو بھی اب دیمک لگ چکی ہے اور آگے سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ اللہ ! ایک زمانہ وہ تھا، کہ سنا ہے اسٹیٹ بنک پاکستان کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم کے چند منٹ دیر سے پہنچنے پر قائداعظم نے ان کے لئے مختص کرسی اٹھوا دی تھی اور وزیراعظم کو ساری تقریب میں دیوار سے لگ کر کھڑے رہنا پڑا تھا۔ یا اب یہ حال ہے کہ محفل کا آغاز ہوئے دیر ہو گئی ہے مگر ناظم وقفے وقفے سے ہر نئے شخص کی آمد پر اس کا نام لے لے کر سواگت کر رہا ہے۔ جو جتنی تاخیر سے آ رہا ہے، اتنی ہی عزت پا رہا ہے۔ کارروائی روک کر اس کی راہ میں آنکھیں بچھائی جا رہی ہیں۔ ادبی محفلوں میں لوگ آداب سیکھنے جایا کرتے تھے۔ اب یہ کیفیت ہے کہ جس ادیب کی پزیرائی کے لئے محفل سجائی گئی ہے وہ خود ادب آداب سے بے بہرہ ہے۔ کچھ عرصہ ہوا، ہمیں ایسی ہی ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ”صاحب شام“ کو دیکھا کہ صدر سے بھی پہلے مرکزی نشست پر براجمان ہو چکے ہیں۔ پھر جب بزم کے اختتام پر ان کی خدمت میں گلدستے پیش کرنے کا وقت آیا تو وہ دبی دب آواز میں ہر گلدستہ لانے والے کا نام خود ناظم کو بتاتے ہوئے سنے گئے۔ ناظم نے اپنی لچھے دار گفتگو کو اس قدر طول دیا کہ محفل کا دورانیہ بہت بڑھ گیا اور جب ایک صاحب نے بڑی شائستہ طنز کے ساتھ ان کی فصاحت و بلاغت کی داد دی تو ناظم کا چہرہ خوشی سے تمتما گیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ آئندہ وہ اور بھی طویل نظامت فرمایا کریں گے۔ یہ بات سامنے کی ہوا کرتی تھی کہ صدر کے اپنی نشست پر آنے سے پہلے محفل کا انعقاد ہوتا ہی نہیں تھا۔ پہلے صدر کو دعوت دینے کے بعد اس سے کارروائی شروع کرنے کی اجازت لی جاتی تھی۔ اب یہ بھی دیکھا جاتا ہے ناظم ابتدا میں آ کر تلاوت کلام پاک کے لئے کسی کا نام پکارتا ہے اور تلاوت کے بعد صدر کے نام کا اعلان کرکے اسے کرسی صدارت پر متمکن ہونے کی درخواست کرتا ہے ۔اس نئے طریقے کے مطابق گویا محفل کا آغاز تلاوت سے ہوتا ہی نہیں۔ جو تلاوت کروائی گئی، اصولی طور پر وہ انعقادِ محفل سے پہلے ایک کارِ ثواب تھا۔ تقریب کا معقول دورانیہ کیا ہونا چاہیے، اس کا پیمانہ بھلے وقتوں میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ کی تقریب اکتاہت پیدا کرنے لگتی ہے۔ اب یہ حد بندیاں قصہ پارینہ ہو چکی ہیں۔ ہر جاننے والے کا نام اسٹیج پر بلائے جانے والوں میں شامل کرنا ضروری ہے ورنہ تعلقات خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ دیر سے آنے والے احباب کے ناموں کا اضافہ کسی میں پانی کی طرح جاری رہتا ہے۔ صدر بے چارہ سوچتا ہے کہ بس اب آخری آٹھ نام رہ گئے ہیں کہ ناگہانی ان کی تعداد پھر بارہ ہو جاتی ہے۔ اس طرح محفل کا سفر نہ گھٹتا ہے، نہ بڑھتا ہے یہ الگ بات کہ ہر مقرر کے سامنے چٹ پہنچنے لگتی ہے کہ اللہ! بات کو مختصر کریں۔ آپ کو بات کرنے کے لئے نہیں بلایا گیا۔ اصل مقصد ایک عدد تصویر اور اخباری رپورٹوں میں ناموں کی طویل فہرست کا اندراج ہے۔ ہر کتاب کی تقریب رونمائی ضروری ہے۔ اگر اشاعت کے موقع پر نہیں ہو سکی تو خیر۔ دوسرے یا تیسرے ایڈیشن پر ہو سکتی ہے۔ ہر کتاب پر ہر شخص سے رائے لینا بھی ضروری ہے۔ یہ آرا اب راستہ چلتے بھی لی جا سکتی ہیں۔ کہیں بھی، کوئی شخص اپنا موبائل کھول کر یا کسی ٹی وی چینل کا بھونپو آپ کے منہ میں دے کر فوری طور پر آپ کی رائے کا طالب ہو سکتا ہے۔ ایسے ناگہانی لمحات میں جو کچھ بھی آپ کی زبان سے نکل جائے گا، آپ کے نامہ اعمال میں درج رہے گا۔ یہ آراءایک کتابچے کی صورت میں طبع ہو کر بھی آسکتی ہیں اور پھر اس کتابچے کی بھی تقریب ہو سکتی ہے۔ جس پر آپ کی مزید رائے بھی لی جا سکتی ہے۔ اس سوددر سود سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔ ہم اس تارِ عنکبوت میں لپٹ چکے ہیں۔ اب وہ خالی لمحے کہاں جو آپ کے باطن کو بھر سکتے تھے اور جن میں آپ جمعیتِ خاطر کے ساتھ کسی درخت کے سائے میں کھلا سانس لے کر کچھ اپنے لئے اور کچھ زمانے کے لئے سوچ سکتے تھے۔