گنجینہ معنی کا طِلِسم (اشاریہ دیوانِ غالؔب) مولّف: رشید حسن خاں

یہ تحریر 4915 مرتبہ دیکھی گئی

            رشید حسن خاں (1925ء  تا  2006ء) کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ اُردو کے جانے پہچانے محقّق، مدوِّن، نقّاد اور اَدیب تھے۔ اُن کے کارہاے نمایاں اُردو اَدب کی تاریخ میں اُنھیں زندہ رکھیں گے۔ مرزا غالؔب کے کلام سے اُنھیں خصوصی لگاؤ تھا۔ مرزا غالؔب پر اُنھوں نے کوئی قابلِ ذکر تدوینی کام تو نہیں کیا ، کیوں کہ غالؔب کے اُردو و فارسی کلام اور خطوط کی ترتیب کا کام اُن سے پہلے دوسرے کر چکے تھے۔ اُنھوں نے اس سے ہٹ کر کلامِ غالؔب کی تفہیم کے سلسلے میں دو اہم ترین کتابیں اُردو اَدب کو دیں۔ ان میں سے پہلی کتاب  “اِملاے غالؔب” تحقیقی تصنیف ہے اور 2000ء میں نئی دہلی اور ادارہ یادگارِ غالؔب، کراچی سے منظرِ عام پر آ چکی ہے۔ اس سلسلے کی دوسری کتاب پیشِ نظر ضخیم تر تالیف ہے۔ یہ بظاہر تو اشاریہ دیوانِ غالؔب ہے لیکن اصلاً اشاریے سے بڑھ کر تفہیمِ غالؔب کی ایک اہم کَڑی ہے۔

            پیشِ نظرکتاب میں فہرست کے بعد سب سے پہلے کتاب کے ناشر ڈاکٹر تحسین فراقی (ناظمِ مجلسِ ترقّیِ اَدب، لاہور) کا “حرفے چند”ہے۔ اس میں اُنھوں نے اختصار کے ساتھ کتاب کی اشاعت کا پس منظر بیان کیا ہے۔ اُنھوں نے انجمنِ ترقّیِ اُردو (ہند)، نئی دہلی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی کا خاص طور پرشُکریہ ادا کیا ہے جنھوں نے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ضخیم کتاب کی کمپیوٹر کمپوزنگ ناظمِ مجلسِ ترقّیِ اَدب کو ارسال کر دی جس کی مدد سے کتاب کی پیشِ نظر اشاعت ممکن ہوئی ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ یہ کتاب مرزا غالؔب کے ڈیڑھ سو سالِ وفات کی مناسبت سے شائع کی جا رہی ہے۔

            کتاب کا “حرفِ آغاز” ڈاکٹر اطہر فاروقی کا تحریر کردہ ہے۔ اس میں اُنھوں نے قدرے تفصیل کے ساتھ کتاب کی اشاعت میں تاخیر اور نئی دہلی سے کتاب کی اشاعت میں مشکلات کا احوال بیان کیا ہے۔ اُنھوں نے کتاب کی تیّاری کے سلسلے میں ڈاکٹر ارجمند آرا اور ڈاکٹر سرور الہدٰی کی محنت اور مدد کا شُکریہ بھی ادا کیاہے۔ اسی “حرفِ آغاز” میں اُنھوں نے رشید حسن خاں سے اپنے نیازمندانہ تعلّق اور خود پر اُن کی نوازشوں کا بھی ذکر کیا ہے۔

            اس کے بعد مولّف رشید حسن خاں کا مقدّمہ کتاب ہے۔ اس میں اُنھوں نے کتاب کی تالیف  کا مقصداور تالیف کا طریقہ کار واضح کیا ہے۔ اُن کے مطابق مفرد لفظ اپنے لُغوی اور مجازی معنوں میں محدود امکانات رکھتا ہےلیکن جب وہی لفظ شعر میں استعمال ہوتا ہے تو اس مین چُھپی ہوئی معنویّت نمایاں ہوتی ہے، پھر ترکیبات میں اُس لفط کے معنوں کی مزید تہیں کُھلتی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ مطالعہ مزید دل چسپی اور معنوی رنگا رنگی           کا حامل ہو جاتا ہے کہ بڑے شاعر کے کلام میں ایک ہی لفظ مختلف اشعار میں کیسے کیسے مختلف مفاہیم پیدا کرتا ہے۔ یوں کسی بڑے شاعر کی لفظیات کا اشاریہ صرف لفظ شماری تک محدودنہیں رہتا، بل کہ لفظ کے باطن میں چُھپی ہوئی رنگا رنگ معنویّت کی بازیافت اور دریافت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

            رشید حسن خاں نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کتاب کی تالیف  کا کام ایک طرح سے 1970ء سے اُن کے ذہن میں تھا لیکن دیگر تدوینی و تحقیقی کاموں میں مصروفیّت کے باعث وہ اس کام کے لیے 2003ء میں وقت نکال سکے، پھر دوسال کی مسلسل اور اَن تَھک محنت کے بعد 2005ء میں اُنھوں نے کتاب مکمل کی۔ کتاب کی تالیف کے طریقہ کار کی وضاھت میں اُنھوں نے بتایا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں اُنھوں نے “دیوانِ غالّب” کے نُسخہ عرشؔی کی پہلی اشاعت 1958ء کو  بُنیاد بنایا ہے۔ بعد کے دریافت شدہ اشعار کے متن کے لیے اُنھوں نے نُسخہ عرشی کی دوسری اشاعت اور ڈاکٹر گیان چند کی “تفسیرِ غالؔب” سے مدد لی ہے۔ اندراجِ الفاظ کا طریقِ کار یہ ہے کہ ہر مفرد لفظ کے بعد اور تحت اُس لفظ کے مرکبات بھی درج ہیں۔ الفاظ اور مرکبات کے سامنے غالّب کا متعلّقہ شعر یا اشعار اور اس کے ساتھ نُسخہ عرشی کے متعلّقہ صفحات کا حوالہ بھی درج کیا گیا ہے۔  پاورق حواشی میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ متعلّقہ لفظ “دیوانِ غاؔلب” میں کتنی بار مفرد لفط کے طور پراور کتنی بارترکیبات  میں استعمال ہوا ہے۔

            اپنے مقدّمے میں رشید حسن خاں نے تفصیل کے ساتھ کتاب کی تالیف  کا مقصداور تالیف کا طریقہ کار واضح کیا ہے۔  ایک محقّق اور مدوِّن کافرض ہے کہ وہ قارئین کو اپنے کام کے طریقہ کار اور کام کی اہمیّت اور مقصد سے بھی پوری جُزیات کے ساتھ آگاہ کرے۔ رشید حسن خاں اس اَمر کا بہت خیال رکھتے تھے، اسی لیے وہ صفِ اوّل کے محقّقین اور مدوّنین میں شمار کیے جاتے ہیں۔   

رشید حسن خاں کی زیرِ نظر تالیف بعض وجوہ سے نہایت اہمیّت کی حامل ہے۔ اوّل تو اس لیے کہ یہ رشید حسن خاں جیسے محقّق و مدوِّن کی آخری تالیف ہے۔ دوسرے، اس کی مدد سے کلامِ غالؔب کی تفہیم کے نئے رنگ سامنے آنے کے امکانت واضح ہوئے ہیں۔ تیسرے، اس کتاب میں غالؔب کے دیوان کا کُل کلام شامل ہے اور وہ بھی مستند متن کے ساتھ، گویا اس کتاب کی موجودگی میں کلامِ غالؔب کے کسی دوسرے نُسخے کی عام طور پر ضرورت نہیں رہی۔ چوتھے، اس کتاب سے ہمیں بہ یک نظرمعلوم ہوجاتا ہے کہ غالّب نے اپنے اُردو کلام میں کون کون سے الفاظ استعمال کیے ہیں اور ان میں سے غالؔب کے محبوب و مرغوب ترین الفاظ اور ترکیبیں کون کون سی ہیں جنھیں غالؔب نے زیادہ استعمال کیا ہے۔ پانچویں، اس کتاب کے ذریعے رشید حسن خاں نے غالؔب کے ماہرین، محقّقین، نقّادوں اور زبان دانوں کے لیے خامہ فرسائی کے امکانات مہیّا کردیے ہیں۔

            ڈاکٹر اطہر فاروقی نے اپنے”حرفِ آغاز” میں بتایا ہے کہ کتاب کی ضخامت کے پیشِ نظر اسے انجمنِ ترقّیِ اُردو (ہند) اور غالؔب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی کے اشتراک سے تین جِلدوں میں شائع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ آمدہ اطّلاعات کے مطابق ان تین میں سے نئی دہلی سے ابھی تک صرف ایک جِلد شائع ہو سکی ہے، جب کہ پیشِ نظر اشاعت کتاب کے مکمل متن پر مشتمل ہے۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ مجلسِ ترقّیِ اَدب، لاہور کی پیشِ نظر اشاعت “گنجینہ معنی کا طِلِسم”  کی پہلی مکمل اشاعت ہے۔

کتاب کی ضخامت 1342 صفحات ہے اور24×18  سم کی تقطیع ، یعنی لُغت سائز پر طبع ہوئی ہے۔ کتاب کی طباعت و پیش کش جاذب نظر اور قابلِ ستائش ہے۔ کتاب کی قیمت 1600 روپےہے جو کتاب کی ضخامت، کاغذ، پیش کش کی خوبیوں اورموجودہ دور کی مہنگائی و کساد بازاری کو دیکھتے ہوئےنہایت مناسب بل کہ بہت کم ہے۔ اس اہم تر کتاب  کی اتنے اچھے انداز میں اشاعت پر مجلسِ ترقّیِ اَدب،لاہور، اس کے ناظم ڈاکٹر تحسین فراقی اور  انجمنِ ترقّیِ اُردو (ہند) کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی ہمارے شُکریے کےمستحق ہیں۔ یہ کتاب ہر صاحبِ ذوق کے کُتب خانے کی زینت ہونی چاہیے۔