اُردو نثر میں طنز و مزاح

یہ تحریر 5037 مرتبہ دیکھی گئی

مصنف : ڈاکٹراشفاق احمد وِرک

اشفاق احمد وِرک کا نام اب اُردو داں حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اُردو کے جانے پہچانے مزاح نگار اور مزاح شناس ہیں۔ اس کے علاوہ تنقید نگاری اور کالم نگاری میں اُن کی نگارشات بھی اُن کی نام آوری کی وجہ ہیں۔ اُن کی یہ سب تحریریں ہمارے لیے مطالعے کا اچھا مواد فراہم کرتی رہتی ہیں ۔ مزاح میں اُن کے فقروں کا بے ساختہ پن اُنھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔ سچّی بات یہ ہے کہ کسی بھی مزاحیہ تحریر کی سب سے اہم اور سب سے بڑی خصوصیّت اور خوبی اُس کا بے ساختہ پن ہونا ہی ہے۔جہاں ذرّہ برابر یہ شائبہ گُذرے کہ جُملہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، وہیں مزاح کا تاثّر تُرنت ختم ہو جاتا ہے، لگتا ہے کہ جیسے لکھنے والا خواہ مخواہ ہمیں ہنسنے پر مجبور کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ اس طرح کا بنایا گیا مزاح کسی بھی صاحبِ ذوق کے نہ تو گلے سے اُترتا ہے اور نہ اُس کے دماغ اور طبیعت کوکیف و سرشاری سے ہم کِنار کر نے کے قابل ہوتا ہے۔ہمارے دور میں اشفاق احمد وِرک اُن معدودے چند لکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں جو اس نُقطے، اس حقیقت سے واقف بھی ہیں اور حتّی المقدور اپنی تحریروں میں اس کا خیال رکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ مزاح نگاری میں اشفاق وِرک کی تخلیقی تحریریں اس کی گواہ ہیں۔
اُردو میں مزاح تخلیق کر نے کے ساتھ ساتھ اَشفاق وِرک مزاح کو تنقید کی سان پر کَس کر اُس کے کَس بَل نکالنے کی سَکَت بھی رکھتا ہے۔ ایسی کوشش وہ اپنے ڈاکٹریٹ کے اُس سَنَدی مقالے میں کر چکا ہے جو “اُردو نثر میں طنز و مزاح” کے عنوان سے دوبار شائع ہو چکا ہے اور اسی اہم کتاب کی دوسری، یعنی تازہ اشاعت اس وقت میرے پیشِ نظر ہے۔ اس کتاب میں مصنّف نے اُردو نثر میں طنز ومزاح کی کم و بیش تین سو سال کی تاریخ کا نہ صرف جائزہ لیا ہے، بل کہ طنزیہ و مزاحیہ تحریروں نے وقتاً فوقتاً برِّ عظیم کے معاشرے، تاریخ اور اَدب پر جو اور جتنے اثرات مرتّب کیے ہیں، اُن کی وضاحت بھی اس میں خوب کی گئی ہے۔
یوں تو کتاب کُل دس (10) حصّوں میں تقسیم کی گئی ہے لیکن اصل کتاب کے چھے باب ہیں۔ باقی حصّوں میں سے ایک میں پروفیسر عبدالجبّار شاکر مرحوم کا “حرفے چند” اور مصنّف کا “پیش گُفتار” ہے۔باقی تین حصّے بالترتیب کتاب کے خلاصے بہ نام “ماحصل”، کتابیات اور اشاریے پر مشتمل ہیں۔ کسی اہم موضوع پر کسی بھی اہم تر کتاب میں اشاریے کا ہونا بہت ضروری ہے، ورنہ کیا محقّق، کیاقاری اور کیا تحقیق کا طالبِ علم؛ کوئی بھی کتاب کے مباحث اور اُس کی افادیّت کے پوری طرح فیض یاب نہیں ہو سکتا، چناں چہ میں سمجھتا ہوں کہ اس اہم کتاب میں اشاریے کے شمول سے مصنّف اور ناشر نے اپنے ذمّہ دار ہونے کا ثبوت مہیّا کیا ہے۔
پہلا باب کتاب کے کلیدی ابواب میں سےہے۔ اس میں مصنّف نے طنز اور مزاح کی اصل اور اس سے متعلق دیگر مباحث کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر: طنز و مزاح ۔۔ ایک معاشرتی ضرورت، طنز اور مزاح میں فرق، طنز و مزاح کی متعارف صورتیں۔ اس کے علاوہ طنز و مزاح کی تعریف، آغاز اور ان کے مابین فرق، عرب و عجم و مغرب میں طنز اور مزاح کے نظریات اورعربی، فارسی، انگریزی میں طنز و مزاح کی روایت کا اجمالی جائزہ اس باب کے دیگر مباحث ہیں۔ باقی پانچ ابواب میں مصنّف نے صِنف وار اُردو کے طنزیہ و مزاحیہ اَدب کا مفصّل تعارف اور اس پر اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان اَصناف کی فہرست ملاحظہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اشفاق وِرک نے ہر اُس صِنف کو اپنی بحث کے دائرے میں لے لیا ہے جس میں کوئی قابلِ ذکر طنزیہ و مزاحیہ تحریرموجود ہے۔ فہرست ملاحظہ ہو:
مضمون، انشائیہ، فینٹیسی، ناول، افسانہ، آپ بیتی و سوانح، خاکہ، سفر نامہ و رپور تاژ، صحافت (کالم)، پیروڈی (تحریف
نگاری)، خطوط، ڈائری، رُوداد، تقاریر، زنداں نامے، تنقید، بلیغیات، لطائف و ظرائف۔
کتاب کے مباحث کو دیکھنا شروع کریں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اشفاق وِرک نے کس محنت اور دقّتِ نظر سے اس سارے مواد کا تعارف اور جائزہ لکھا ہے۔ ہر بیان کی دلیل کے طور متعلقہ موضوع کے ماہر کا تصدیقی یا تردیدی بیان موجود ہے۔ تخلیق پاروں اور تخلیق کاروں کی کاوشوں کا بے لاگ تجزیہ کرکے قاری کو یہ آسانی مہیّا کی ہے کہ وہ ہر ایک کے بارے میں اپنی رائے قائم کر سکے۔ بحث کو خواہ مخواہ طول دینے کی کوشش نہیں کی، بل کہ ضروری بات کہہ کے آگے بڑھنے کا رُجحان کتاب میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اشفاق وِرک کی نظر سے کوئی اہم طنزیہ و مزاحیہ تحریر چُھوٹ گئی ہو جسے اُس نے اپنے مطالعے اور تجزیے میں شامل نہیں کیا۔ کتاب کے پھیلے ہوئے مواد، مآخذ کی طول طویل فہرست اور ان دونوں پر اشفاق کے تجزیاتی مطالعے کو دیکھتے ہوئے اُس کی محنت، ذہانت اور علم پر بے۔ اختیار اَش اَش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اپنے “پیش گُفتار” میں اشفاق نے اپنے ڈاکٹریٹ کے موضوعِ مقالہ کا جواز، مقالے کے لکھنے کی رُوداد اور تسویدِ مقالہ میں مدد دینے والوں کی خدمت میں ہدیہ تشکُّر پیش کیا ہے۔ اس نے اپنا سَنَدی مقالہ ڈاکٹر تحسین فراقی کی نگرانی میں مکمل کیا۔ پروفیسر عبدالجبّار شاکر مرحوم نے “حرفے چند” میں اشفاق کی محنت اور کتاب کی نمایاں خصوصیات تفصیل کے ساتھ لکھ دی ہیں۔ اُنھوں نے اس کتاب کی خصوصیات کے حوالے سے اشفاق کے اُسلوب کی جس خوبی کو سب سے زیادہ سراہا ہے، وہ اُنھی کے الفاظ میں پڑھنا مناسب رہے گا:
“ڈاکٹر اشفاق احمد وِرک کی طنز و مزاح سے طبعی مناسبت نے اس کتاب کی پیش کش میں ایک ایسا تخلیقی شعور،
تنقیدی مزاج اور تحقیقی اُپچ پیدا کر دی ہے جو اس موضوع پر کسی دوسرے محقّق یا ناقد کے لیے ممکن نہ تھی۔ ” (صفحہ 13)
کتاب کے اُسلوبِ تحریر کے سلسلے میں اشفاق کا بیان ہے کہ
” ۔۔۔ ایک اہم بات یہ بھی میرے پیشِ نظر تھی کہ اپنےتحقیقی و تنقیدی تجزیات کو تحقیق کے روایتی اوریبوست زدہ اُسلوب میں قارئین کے گوش گزار کیا جائے یا اس کھلکھلاتے اور گُد گُداتے موضوع پر اظہارِ خیال کے لیے بھی کوئی لطیف اور ہلکا پُھلکا اندازِ بیان اختیار کیا جائے۔ ذہن و قلب سے موخّر الذکر اُسلوب کی بہ یک زبان منظوری آنے پر راقم نے اسی طرزِ اظہار کو اپنانے کا عزم کیا۔” (صفحہ 15)
اپنے “حرفے چند” میں عبد الجبّار شاکر نے بھی یہی بات مصنّف کی خوبی کے طور پر بیان کی ہے۔
اس لطیف، ہلکے پُھلکے اور متبسّم طرزِ بیان یا اُسلوب کی چند جھلکیاں دیکھیے۔ اپنے شگُفتہ انداز میں وہ اپنے اُستاد کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
(میرے) “… تحقیقی سلسلے کے نگران جناب پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی … کی کَڑی نگرانی نے مجھے تحقیقی مزاج سے اس قدر آشنا کر دیا کہ اب تو ‘میاں بیوی’ کے الفاظ ادا کرتے ہوئے بھی ‘بیوی میاں’کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ابجد و حالات کا یہی تقاضا ہے۔” (صفحہ 16)
اپنے اسی “پیش گُفتار” میں مزید لکھتے ہیں کہ ” مجھے پروفیسر مِس ذکیہ خورشید کے لیے بھی خصوصی طور پر سپاس گُزار ہونا ہے کہ جن کی وساطت سے میرے لیے کوئین میری کالج سمیت لاہور کی دیگر زنانہ لائبریریوں میں تاکنا جھانکنا ممکن ہوا۔” (صفحہ 16)
672 صفحات کے اس ضخیم مقالے میں عام کتابی تقطیع کا ایک ہزار سے زائد صفحات کا مواد موجود ہے، کیوں کہ کتابت (فونٹ) کا قُطر (سائز) عام کتابوں سے قدرے خفی رکھا گیا ہے، تاکہ ضخامت اور اس کے نتیجے میں کتاب کی قیمت کم رہے۔ مصنّف اور ناشر کا یہ احساس کرنا بھی قابلِ ستائش ہے۔ یہ اہم کتاب 2014ء مطابق1435ھ میں لاہور کے معروف اشاعتی ادارے کتاب سرائے سے شائع ہوئی ہے۔ اپنے موضوع، مواد اور پیش کش کے اعتبار سے یہ اہم کتاب اس کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کی قدر دانی کی جائے، چناں چہ اسے ہر صاحبِ ذوق کے کُتب خانے کی زینت ہونا چاہیے۔