واصف علی واصف کو ریاض احمد کا ہدیہء تبریک

یہ تحریر 1529 مرتبہ دیکھی گئی

نہاں خانہء ذات میں اُتر کر صاحبِ کُن فیکون سے ربط کی تاریں ملانے والے ہمارے اردگرد ہی ہوتے ہیں لیکن ظاہر کی آنکھ سے پنہاں اور باطن کی سرزمین میں متشکل۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو باطن کی آنکھیں رکھتے ہیں اور ان مسافروں کے مشاہدوں کے شائق بھی رہتے ہیں۔ شاید کم، بہت کم۔ یا پھر ہم ان کی تعداد کا اندازہ لگانے سے بھی قاصر ہیں۔ کچھ بھی ہو، اس سب میں اہم تر ایسی شخصیات کا موجود ہونا اور اہلِ باطن کا اُن کے اوصافِ حمیدہ سے آگاہ ہونا ہی ہے۔

ایسے ہی ایک صاحبِ باطن واصف علی واصفؔ بھی تھے۔ واصف صاحب اب عوامی حلقوں میں جانا پہچانا نام ہے۔ اُن کے نام، کام اور صاحبِ حال ہونے سے عوام بھی واقف ہیں، خواص تو خوب واقف ہیں۔ ریاض احمد سے اُن کا یارانہ تھا۔ ریاض صاحب خود بھی نہاں خانہء ذات کے مسافر ہیں۔ اس سفر کے رموز و اسرار، منزلوں اور مسافت سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اُنھوں نے ایک طرح سے واصف صاحب کا حقِ دوستی اور حقِ رفاقت ادا کرتے ہوئے اُن کی شخصیت اور افکار پر ایک مجموعہء مضامین مرتّب کیا ہے، بہ عنوان “صاحبِ حال (ملکِ بقا کا سفیر)” اس مجموعے میں ملکِ اَدب کے انتھک مسافروں کے وہ مضامین شامل ہیں جو واصف صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر خوب روشنی ڈالتے ہیں۔

ریاض صاحب نے بعض مشمولہ مضامین کے مصنفین کا مختصر تعارف بھی ہر مضمون کے شروع میں دے دیا ہے جس سے صاحبِ مضمون کا واصف صاحب سے رابطے اور تعلق کی نوعیت اور گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ملک عبدالرزاق کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے اُنھوں نے لکھا کہ “واصف” صاحب سے اتنے درینہ تعلق والا کوئی اور دوست میری نظروں میں نہیں”؛ پروفیسر ڈاکٹر خوشی محمد خاں کے بارے میں واضح کرتے ہیں کہ “1963ء  سے جرمنی میں مقیم پروفیسر ڈاکٹر خوشی محمد خاں صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں واصفؒ صاحب کے ہم جماعت اور دوست ہیں” اور محمد حنیف رامے سے متعلق تحریر کرتے ہیں:

“واصفؒ صاحب گاہے بگاہے مجھ سے حنیف رامے صاحب کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے ۔۔۔۔ حنیف صاحب، واصفؒ صاحب کو اس کرّہء ارض پر اللہ تعالیٰ کا سفیر سمجھتے ہیں جو ہمہ حال واصلِ باللہ بھی ہے اور واصلِ خلق بھی۔” ان تعارفی کلمات سے کتاب میں شامل تحریروں کی اس ہمیت کا بہ خوبی انداز ہوتا ہے کہ یہ تحریر سرسری اور روایتی طرز سے ہٹ کر واصفؒ صاحب کی واقعی شخصیت کو اجاگر کرنے کا فریضہ انجام دیتی نظر آتی ہیں۔ کتاب میں شامل دیگر محبّانِ واصف میں میرزا ادیب، صدیقہ بیگم، محمد اکرام چغتائی، جہانگیر میر، ڈاکٹر اظہر وحید، محمد طارق واصفی اور ڈاکٹر زاہد اختر شاہین شامل ہیں۔ کتاب کی ایک اہم تر خصوصیت یہ ہے کہ اس کے آخری حصّے میں مرتّب  ریاض احمد کے چار مضامین اور واصفؒ صاحب کی تحریروں سے منتخبہ اقوالِ زرّیں سے مزیّن گوشہ بھی شامل ہے ۔

مرتّب نے کتاب میں جا بجا اسلامی فنِ خطّاطی کے نمونے بھی شامل کیے ہیں جو کتاب کے مجموعی تاثر سے یک گونہ مطابقت رکھتے ہیں۔ اپنے موضوع پر یہ اہم کتاب خود مرتّب نے اپنے منفرد اشاعتی ادارے قوسین۔ سویرا (فیصل ٹاؤن لاہور) سے شائع کی ہے۔ کتاب 80 گرام کاغذ پر دیدہ زیب طباعت اور مجموعی دل کش پیش کش کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ 172 صفحات پر مشتمل یہ کتاب محض چار سو روپوں  کی قیمت میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ (برائے رابطہ: سی۔1، 124، فیصل ٹاؤن، لاہور، فون: 35165309)