طلسم ِ ہوشربا

یہ تحریر 1232 مرتبہ دیکھی گئی

کتاب:طلسم ِ ہوشربا
مولف:سیدمحمد حسین جاہ
مرتب: مشرف علی فاروقی
تبصرہ: رفاقت علی شاہد
اُردو کا تاریخ ساز منفرد اور بے مثال ادبی شاہ کار ’’داستانِ امیر حمزہ‘‘ ہے۔ یہ طول طویل داستان دو بار ہزاروں صفحات میں تحریر ہوئی۔ پہلی بار اُنیسویں صدی کی چھٹی دہائی سے بیسویں صدی کی پانچویں دہائی تک، یعنی تقریباً ایک صدی تک رام پور میں بیسیوں ضخیم ترین جلدوں میں لکھی گئی اور دوسری بار محسنِ اُردو اور اُردو کے اب تک کے سب سے بڑے ناشر منشی نول کشور کی توجہ اور سرپرستی میں 46 ضخیم جلدوں کے کم و بیش 42ہزار صفحات میں شائع ہوئی۔ منشی نول کشور کے مطبع میں یہ طویل داستان 1884ء میں چھپنی شروع ہوئی اور 1950ء کی دہائی تک اس کی مختلف جلدیں ایک سے زائد بار طبع ہو کر شائع ہوتی رہیں۔ مطبع منشی نول کشور سے طبع و شائع ہونے والی یہ 46جلدیں آج تک تخیلی افسانوں کا طویل ترین مطبوعہ سلسلہ ہے۔ اس مطبوعہ سلسلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا آغاز معروف زمانہ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ سے ہوا، جو ’’داستانِ امیر حمزہ‘‘ کے سات دفتروں یا حصوں میں سے پانچواں دفتر یا حصہ ہے۔ اس حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس طویل 46جلدی داستانوی سلسلے میں ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ اپنے اسلوب، واقعات، دلچسپی اور تخیل کی رنگا رنگی کے اعتبار سے دلچسپ تر ہے اور اس میں بھی اس کی پہلی چار جلدیں دلچسپ ترین ہیں، جو منفرد نثر نگار اور داستان گو منشی محمد حسین جاہ کی تصنیف سے ہیں۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ کی پہلی چار جلدیں ’’داستانِ امیر حمزہ‘‘ کی نول کشوری روایت کی جان ہیں۔ ’’داستانِ امیر حمزہ‘‘ کی مطبوعہ روایت میں ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ کی اسی دلچسپی اور اہمیت کی وجہ سے اس کی آٹھ یا دس جلدیں ’’داستانِ امیر حمزہ‘‘ کی باقی جلدوں کی نسبت زیادہ بار طبع ہو کر شائقین کے ہاتھوں میں پہنچیں۔ تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان میں سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے اصل ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کی آٹھ جلدیں دو بار شائع کیں، جب کہ بھارت میں خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ سے عابد رضا بیدار نے ’’بقیہ‘‘ سمیت ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ کی دس جلدیں شائع کیں۔


’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ کی مذکورہ بالا تمام اشاعتیں قدیم طرز ِ کتابت اور پرانے املائی نظام میں طبع ہوئیں۔ یہاں تک کہ تقسیم برصغیر کے بعد بھی جو اشاعتیں پاک و ہند سے منظر عام پر آئیں، وہ قدیم اشاعتوں کے عکس پر مشتمل تھیں۔ قدیم کتابت اور املاء وغیرہ کا پڑھنا آج سو ڈیڑھ سو سال بعد جدید دور کے قارئین کے لیے بہت مشکل، بلکہ بیش تر اوقات نا ممکن ہوتا ہے۔ چناں چہ ضرورت تھی کہ دنیا کے بہترین تخیلاتی داستان کے اہم ترین حصے ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کو نئی ترتیب، نئی تزئین، جدید اِملا و رموزِ اوقاف اور جاذب نظر نئی کتابت کے ساتھ آج کے قارئین کو سامنے رکھ کر شائع کیا جائے۔ اس ضرورت کو معروف داستان شناس، اردو سے انگریزی مترجم اور انگریزی فکشن نگار مشرف علی فاروقی نے سب سے پہلے محسوس کیا اور اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی سے اپنے دورِ نظامت میں اس تازہ سلسلے کی تین جلدیں شائع کیں جو اب کمیاب ہو چکی ہے اب انھوں نے اپنے اشاعتی ادارے کتاب (لمیٹڈ) کے تحت ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘کی پہلی جلد شائع کی ہے جو پہلے کی نسبت متعدد خوبیوں کی مالک ہے۔ ان خوبیوں میں :
1۔ نئی اور جاذب نظر کمپیوٹر کمپوزنگ، جس سے قاری کے لیے طلسمِ ہوش ربا کے پرانے متن کو پڑھنا آسان ہو گیا ہے۔
2 ۔ متن میں آنے والے کثیر تعداد میں فارسی شعروں کا اُردو میں ترجمہ۔ اس کی بدولت غیر فارسی اردو داں فارسی کے ان برمحل اور پُرمعنی اشعار کے مفہوم تک بہ آسانی پہنچ جاتے ہیں۔
3۔ عام قارئین کی سہولت کے لیے مشکل الفاظ کی فرہنگ شامل کی گئی ہے جو ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ کے مشکل الفاظ کا یوں احاطہ کرتی ہے کہ قاری متعلقہ عبارت کے مفہوم تک بخوبی پہنچ سکتا ہے۔
4۔ جدید اِملا اور رموز اوقاف کے ذریعے متن کو قابلِ مطالعہ بنایا گیا ہے۔ امتدادِ زمانہ سے اُردو طباعت کے قدیم خصائص اب آہستہ آہستہ متروک اور اجنبی ہو گئے ہیں۔ ان میں الفاظ کو ملا کر لکھنا، کتابت کا گنجان ہونا، پیراگرافوں کا نہ ہونا اور قدیم املا و رموزِ اوقاف کی نامانوس صورتوں کا ہونا شامل ہیں۔ ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ کی اس جدید اشاعت میں ان تمام اُمور کی تصحیح اور انھیں جدید املا و نظامِ طباعت و اشاعت کے مطابق بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
5۔ متن کی پروف خوانی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ اصل میں اُردو کتابوں میں یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے، جسے مشرف علی فاروقی اور اس کتاب کی تیاری میں شامل اُن کی جماعت نے بہ خوبی حل کیا ہے۔
6۔ ایک اور اہم چیز کتاب کی پیش کش ہے۔ کتاب کے سرورق اور اندرونی صفحات میں ’’داستانِ امیر حمزہ‘‘ کے اہم کرداروں کی شبیہوں کواس خوبصورتی کے ساتھ رنگینی سے ہم کنار کیا گیا ہے کہ آدمی بس دیکھتا ہی رہ جائے۔ کاغذ، طباعت، جلد بندی، ڈسٹ کور (جلد پوش) اور ابری کی پیش کش پر خاص توجہ کی گئی ہے۔ ان سب خصوصیات کی بنا پر یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ مشرف علی فاروقی نے اس کتاب کے ذریعے صاحب ذوق قارئین کے لیے ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ کی ایک قابل فخر اور بے مثال اشاعت دنیائے علم و ادب کو دی ہے۔ اس کتاب کا ہر اہلِ ذوق کے پاس ہونا ضروری ہے۔