‎ کہانی در کہانی

یہ تحریر 413 مرتبہ دیکھی گئی

تیسری کہانی:

ہجرت کے دُکھ::

آج جوکہانی میں آپ کوسناؤں گا وہ ہجرت کےدکھ سےشروع اور اسی پرتمام ہوتی ہے،پہلے یہ اشعار سنئے-

پانی میں عکس اورکسی آسماں کاہے

یہ ناؤ کونسی ہے یہ دریا کہاں کاہے

(احمد مشتاق)

دردہجرت کےستائے ہوئےلوگوں کو کہیں

سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے

(بخش لائل پوری)

مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی

وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا

(ناصر کاظمی)

پرانی باتیں،پرانی چیزیں،پرانےشہر، پرانے لوگ معلوم نہیں مجھے کیوں اچھے لگتے ہیں-لوگ اسے ناسٹیلجیا کہیں تو کہیں، میں اسے اپنے اصل سے تعلق اور اپنے اقدار سےمحبت کہوں گااور میرے نزدیک یہ مثبت جذبہ ہے-اپنے پرانےوطن کویاد کرنا اوراس سےتعلق رکھنےوالی باتوں کا ذکر کرتےرہنا ہی ہجرت کادکھ کہلاتا ہے-احمدمشتاق،بخش لائل پوری اورناصر کاظمی تینوں ہی ہجرت کے دکھ میں مبتلا رہے ہیں اور اس کا اظہار تینوں نے اپنی شاعری میں جا بجا کیا ہے-احمدمشتاق ماشآلللہ بقیدحیات اورامریکہ میں مقیم ہیں ، احمد مشتاق کوپہلےامرتسر سے لاہور پھر لاہور سے امریکہ دوہری ہجرت کاسامنا کرناپڑا،بخش لائلپوری نے پہلے کپورتھلہ سےلائلپوراورپھرلائلپور سےلندن ہجرت کی،البتہ ناصرکاظمی کوانبالہ سےبس ایک دفعہ لاہور کی ہجرت کادکھ سہنا پڑا-ہجرت اُردو شاعری کامستقل موضوع رہا ہے-ولی دکنی سے لے کر میر، ذوق اور غالب تک سب نے یہ سہا ہے:

ہجرت سوں دوستاں کی ہوا جی مرا گداز

عشرت کے پیرہن کوں کیاتارتار دل (ولی دکنی)

 قصۂ درد ِغریبی اُس سےپوچھاچاہئیے

موسم ِگُل میں جواپنےآشیاں سے دورہو(استاد ذوق)

ہجرت کادکھ ان سب کا سانجھارہا ہے-غالب نے تواپنےقدیم وطن اوراپنےاسلاف پر فخر کا اظہاربھی کیا ہے:
غالب از خاک پاک تورانیم
لاجرم در نسب فرھمندیم
ترک زادیم و در نژاد ھمی
بہ سُترگان قوم پیوندیم۔

“میں توران کی پاکیزہ مٹی سے تعلق رکھتا ہوں بلاشبہ عالی النسب ترک زاد ہوں اورمیرا تعلق عظیم حکمران خاندانوں سے ہے”

میرے نزدیک ہجرت کی تین بنیادی وجوہات ہوتی ہیں؛سیاسی،جبری اور معاشی ہوتی ہیں-سیاسی ہجرت کی مثال ۱۹۴۷ کی پاک و ہندہجرت، جبری ہجرت کی مثال فلسطینیوں کی ہجرت جب کہ معاشی کی مثال حال ہی میں لیبیایونان کےساحلوں پر پیش آمدہ واقعہ ہے جس میں غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سےسینکڑوں پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں-اس کہانی کاآغازمعاشی ہجرت سے کرتے ہیں کہ یہ آج کاسب سے اہم مسئلہ ہےاورموثق ذرائع کے مطابق ا س سال جنوری اور جون کے درمیان تین لاکھ پچانوے ہزار افراد نےاپنے لئے بہترمستقبل اور بہترمعاش کےحصول کی خاطر قانونی یاغیر قانونی ذرائع سےپاکستان سے غیر ممالک کی جانب ہجرت کی ہے گویا کم و بیش ستر ہزارافراد ہرماہ بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک کو چھوڑ رہے ہیں،یہ مستقبل کےلئےاچھی علامت نہیں ہے بلکہ یہ صورتحال ملک کی ابترمعیشت کی نشان دہی کرتی ہے-ہاں ایک بات ضرورلیبیا کےواقعے سے سامنے آئی ہے کہ یہ غیر قانونی تارکین وطن چالیس سے پچاس لاکھ تک کی رقم ایجنٹ کوادا کرکےسہانے سپنے سجائےملک کو چھوڑرہےتھےاوراگر وہ وہاں صحیح سلامت پہنچ بھی جاتے تو اُن کا جو انجام ہونا تھاوہ آپ مہرین جبار کی مشہور ڈرامائی سیریل “جیکسن ہائیٹس”میں بخوبی ملاحظہ کر سکتے ہیں دیکھا جائےتواس چالیس پچاس لاکھ کی رقم سے یہ لوگ اپنے وطن ہی میں رہ کراچھابھلا کاروبار شروع کر کےاپنوں کےساتھ زندگی گزار سکتے تھے،مگر لالچ کا کوئی علاج نہیں-اس حوالےسے قرآن حکیم کی گواہی:

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا.
(المعارج، 70: 19)۔
“بے شک انسان بےصبراور لالچی پیدا ہوا ہے “۔

خیراب دوبارہ اپنی کہانی کی طرف آتے ہیں-ہجرت کے حوالے سے اُردو ادب میں خاصا موادملتا ہے جو زیادہ ترافسانوی ادب میں ہے-ان افسانوں کےعنوانات کو دیکھتے ہی ہجرت کے دکھوں کی معنویت اور گہرائی کا اندازہ ہو جاتا ہے-سعادت حسن منٹو نے ہجرت کے موضوع پربہت لکھاہے، اُن کے افسانےٹوبہ ٹیک سنگھ،ننگی آوازیں، اللہ دتا،خدا کی قسم،انجام بخیر،قادرا قصائی خصوصآ قابل ذکر ہیں- ان تمام کہانیوں میں ہمیں ہجرت کے اثرات اور پیش آنے والی تمام تر مشکلات کی تفصیل ملتی ہےہجرت کے دکھ کا بڑا واضح اظہار منٹوکے افسانےٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہوا ہے- یہ ایک پاگل شخص بشن سنگھ کی کہانی ہےجو ٹوبہ ٹیک سنگھ کا رہائشی ہے اور لا ہور کے پاگل خانے میں داخل ہےآزادی کےبعدجب تقسیم کا عمل شروع ہواتو پاگلوں کی بھی تقسیم ہوئی اوربشن سنگ انڈیا کے حصے میں آیامگروہ کسی طرح زبردستی کی ہجرت کے لئے تیار نہ ہوا-آگے اس کی کہانی منٹونے جس منفرد اور موثر اندازسے بیان کی ہے اُس کا اندازہ اسے پڑھ کر ہی ہوسکتا ہے کہانی کا یہ آخری حصہ ہجرت کے کرب کی لاجواب عکاسی کرتاہے: قیام پاکستان کے بعد نئے اسلامی ملک کی جانب ہجرت اگر چہ ایک نصب العین اورمذہبی عزم کے پس منظر میں ہوئی تھی مگر گہرائی میں جائیں تواس کے ساتھ بھی جو خاندانی اور معاشرتی مسائل سامنے آئے اُن کے نقوش بڑے گہرے اور دوررس تھے،اسی لئے یہ اُردو ادب کے اہم موضوعات بن گئے ہیں-افسانوں کے علاوہ ہجرت پر باقاعدہ ناول بھی لکھےگئے ہیں جن میں سچے تاریخی حقائق بیان کرنے کےساتھ ساتھ معاشرہ کے فکری انتشار اور آبادکاری کے مسائل کا جائزہ بھی لیاگیاہےقراۂ العین حیدرکا ناول“آگ کا دریا”عبداللہ حسین کا “اُداس نسلیں” خدیجہ مستور کے ناول “آنگن”اور “زمین”اس سلسلے کی نمایاں مثالیں ہیں-

ہجرت کی کہانی ہمیشہ کئی ایک نئی کہانیوں کی تخلیق کا باعث بنتی ہے بقول منیر نیازی؀

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اُتراتو میں نے دیکھا