ہم، جو کچھ بھی نہیں

یہ تحریر 554 مرتبہ دیکھی گئی

ہم نے بچپن غباروں میں پھونکا
تو ششدر نگاہوں سے ہم اس کو پھٹتے ہوئے دیکھتے رہ گئے
ہم نے تاریکیوں کا سفر
روشنی کی طرح چیر کر
چند لمحوں میں یوں کر لیا
کہ خلا بن گئے
وہ خلا جو مسلسل ابھرتے ہوئے
سورجوں کی نمائش میں مصروف ہے

ہم سرابوں میں رہتے مکیں
ایک پانی کے قطرے کو ترسے سبھی
دھوپ سے سیںنکتے تھے ہم اپنا بدن
ایک دن پانیوں میں ابال آ گیا
اور دریا کی بےرحم موجیں
ہمی کو بہا لے گئیں
کتنی بےرحم ہے زندگی

ہم کو گلّوں کی صورت میں ہانکا گیا
راہ داری میں اُگتی ہوئی گھاس کھانے سے روکا گیا
پھول چنتے ہوئے خار لگنے سے جو خون ٹپکا
تو سردی کے مارے ہمارا ہی خوں جم گیا
ہم کہ لوح ازل پر نہیں
ہاں مگر ہیں تو کیا ہیں؟
نہیں جانتے۔۔!