ہم نے بچپن غباروں میں پھونکا
تو ششدر نگاہوں سے ہم اس کو پھٹتے ہوئے دیکھتے رہ گئے
ہم نے تاریکیوں کا سفر
روشنی کی طرح چیر کر
چند لمحوں میں یوں کر لیا
کہ خلا بن گئے
وہ خلا جو مسلسل ابھرتے ہوئے
سورجوں کی نمائش میں مصروف ہے
ہم سرابوں میں رہتے مکیں
ایک پانی کے قطرے کو ترسے سبھی
دھوپ سے سیںنکتے تھے ہم اپنا بدن
ایک دن پانیوں میں ابال آ گیا
اور دریا کی بےرحم موجیں
ہمی کو بہا لے گئیں
کتنی بےرحم ہے زندگی
ہم کو گلّوں کی صورت میں ہانکا گیا
راہ داری میں اُگتی ہوئی گھاس کھانے سے روکا گیا
پھول چنتے ہوئے خار لگنے سے جو خون ٹپکا
تو سردی کے مارے ہمارا ہی خوں جم گیا
ہم کہ لوح ازل پر نہیں
ہاں مگر ہیں تو کیا ہیں؟
نہیں جانتے۔۔!