تلاشِ گُم گشتہ

یہ تحریر 535 مرتبہ دیکھی گئی

یہ تمنا کا لاوا پگھل کر رہے گا
وہ جو صدیوں سے میرے دلِ مضطرب میں دبا تھا
وہ آنکھوں کے رستے بہے گا
کہ بہنا ازل کو ابد سے ملاتا ہے
پر کوئی ملتا نہیں
کیا بچھڑنے کے امکان کو
میری تغاروں میں بونے کا مقصد یہی تھا
کہ میں تجھ سے دوری پہ
قریہ بہ قریہ بچھڑنے کا نوحہ کہوں

کیا کہوں کہ تو خاموشیوں کو بھی
سانسوں کے تاروں پہ بجتی ہوئی
دھن میں سنتا ہے
کیسا معمہ ہے، جو حل نہ ہونے کا سامان
میرے خیالوں کی
الماریوں میں سجاتا چلا جا رہا ہے
مُجھ کو قیدی کرو
اور میری تلاطُم میں بہتے سمندر کو
آواز دو،
تاکہ میں تیری وسعت کا اندازہ کرتا چلوں

آنکھ کی پتیلوں میں
ہمارے بچھڑنے پہ تالی بجاتے ہوئے
سب تماشائیوں کو بھی قیدی کرو
تاکہ وہ بھی تو جانے
اُس ان دیکھی قوت کا دُکھ
جو ہمیں ایک دوجے کو
دوری پہ مجبور کرتی ہے
پر وہ دکھائی نہیں دے رہی

کیا دکھاوا ضروری ہے؟
اس انبساطِ جہاں میں،
نہیں ہے اگر تو تصدّق شعاری پہ معمور
ہم کو بتائیں،
زمینی کہاوت پہ خندہ زنی کرنے والے
بتائیں ہمیں
وہ جو موجود ہے پر دکھائی نہیں دے رہا ہے،
کہاں ہے؟