یہ عجب نارسیدہ تناؤ ہے
جو میری شہ رگ میں ابھرا ہوا ہے
وہ نظر سے پرے ماوارائی شبیہوں میں
گھٹتا بدن کھینچتا ہے مُجھے
جس کی پہلی جھلک نے مجھے
اپنے ہونے نہ ہونے میں الجھا دیا ہے
میں زمانے کی تقلید میں اُس طرف چل دیا
جس طرف مجھ کو میرا نشاں تک نہیں مل سکا
ایک دن اُس نے لوحِ فلک پر مرا نام لکّھا
تو میں زندگی سے نمٹتے ہوئے اس طرف چل پڑا
جس طرف اُس کے ہونے کا مجھ کو
یقیں ہو چلا تھا
میں تخیل میں ابھرا ہوا رنگ تھا
جب نکھارا گیا
تب میں اُس کی تموّج سے مٹی پہ ظاہر ہوا
اور اس کی نمو سے
کئی رنگ مجھ پر نچھاور ہوئے
کچھ ستارے فلک سے
مرے بام و در پر اترنے لگے
جگمگاتے ستاروں کی
اُس دودھیا روشنی میں
وہ مجھ کو نظر آ گیا
اور میں کھو گیا
اس کی پہلی جھلک کی کشش
آج تک بھول پایا نہیں