تخیّل میں ابھرا ہوا رنگ

یہ تحریر 483 مرتبہ دیکھی گئی

یہ عجب نارسیدہ تناؤ ہے
جو میری شہ رگ میں ابھرا ہوا ہے
وہ نظر سے پرے ماوارائی شبیہوں میں
گھٹتا بدن کھینچتا ہے مُجھے
جس کی پہلی جھلک نے مجھے
اپنے ہونے نہ ہونے میں الجھا دیا ہے
میں زمانے کی تقلید میں اُس طرف چل دیا
جس طرف مجھ کو میرا نشاں تک نہیں مل سکا
ایک دن اُس نے لوحِ فلک پر مرا نام لکّھا
تو میں زندگی سے نمٹتے ہوئے اس طرف چل پڑا
جس طرف اُس کے ہونے کا مجھ کو
یقیں ہو چلا تھا

میں تخیل میں ابھرا ہوا رنگ تھا
جب نکھارا گیا
تب میں اُس کی تموّج سے مٹی پہ ظاہر ہوا
اور اس کی نمو سے
کئی رنگ مجھ پر نچھاور ہوئے
کچھ ستارے فلک سے
مرے بام و در پر اترنے لگے
جگمگاتے ستاروں کی
اُس دودھیا روشنی میں
وہ مجھ کو نظر آ گیا
اور میں کھو گیا
اس کی پہلی جھلک کی کشش
آج تک بھول پایا نہیں