ہاسٹلائز روحیں

یہ تحریر 295 مرتبہ دیکھی گئی

ہاسٹلائز روحیں
ہاسٹل ہر اس جگہ پائے جاتے ہیں جہاں گھر نہ ہوں، مگر یہ بات بھی درست ہے کہ اگر بیوی ‘اچھی’ ہو تو گھر کو ہاسٹل بنتے دیر نہیں لگتی۔ دوسری طرف ہاسٹل کو گھر بنانے کے ہنر سے کم کم لوگ ہی واقف ہوتے ہیں۔ “ہاسٹل میں پڑنا” پطرس کا موضوع بنا تو اس کے پیچھے وہ اوصاف حمیدہ تھے جو ہوسٹلائز طلباء کی شخصیت کا خاصہ ہوتے ہیں۔ میں بھی ایک طالب علم ہوں اور ہاسٹلائز بھی۔ مگر آج تک وہ اوصاف حمیدہ خود میں تلاش نہیں پاتا۔ ہاں میرے ہاسٹل کے در و دیوار اس بات کا ثبوت ہیں کہ کمی کہیں نا کہیں مجھ میں ہی ہے جو اپنے کرداری خاکہ میں ہاسٹل کا رنگ بھر نہ پایا۔ میرے ہاسٹل کے ساتھیوں میں وہ خصوصیات ایسی رچ بس گئی ہیں کہ راہ چلتے پہچانے جاتے ہیں کہ ضرور ہاسٹل کے باسی ہیں۔ ایسی ہی کچھ شخصیات کا آپ سے تعارف کرواتا ہوں۔ آئیے ملاقات کیجئے۔۔۔
نمبر اول پر ہیں سرائیکی بھائی۔ ان کی پہچان یہ ہے کہ جب بھی اپنے کمرے سے نکلتے ہیں بمعہ لاؤ لشکر نکلتے ہیں۔ ان کی آمد کی خبر، وہ گانے ہیں جو شریف لوگ نہیں سنتے، مگر ہاسٹل کے لونڈوں کی مثال استثنائی ہے۔ میرا روم میٹ انہیں پیار سے “بے سرا لشکر” کہتا ہے اور ان کا استقبال یوں کرتا ہے، “یار آپ گاتے بہت اچھا ہیں”
سرائیکی عجب لڑکے ہیں۔ آج تک میں جتنے سرائیکیوں سے ملا ہوں، ان میں دو باتیں مشترک پائی ہیں، پارٹی میں ان کا جھومر نکل جاتا ہے اور سنجیدہ ماحول میں ہاسا۔ مگر یہ سرائیکی انوکھی مخلوق ہیں ایسی ایسی آوازیں نکالتے ہیں کہ مجھ جیسا مہذب بندہ سن کر دو نوافل برائے معافی ادا کرنے جائے یا نہ جائے، کانوں کو ہاتھ ضرور لگا لیتا ہے۔ وہ تو بعد میں معلوم پڑا کہ ان آوازوں کا ماخذ پنجابی مجرے اور لڈو گیم میں گوٹی کی مار پر احساسِ طرب میں نکلی ہوئی آوازوں کا ملاپ ہے۔ خدا کا شکر ہے آوازوں کا ماخذ معلوم ہو گیا ورنہ میرے کان توبہ کرتے کرتے ضرور گھس جاتے۔ ان کی اپنے ہمسایہ ساتھیوں سے اکثر سرد جنگ جاری رہتی ہے جس کی وجہ وہ مخصوص آوازیں ہیں جن کا ذکر ہو چکا، ہاں البتہ یہ سرد جنگ جب واٹس ایپ وار میں تبدیل ہوتی ہے تو قلمی دھمکیوں سے ہوتی ہوئی لفظی دشنام طرازی تک جا پہنچتی ہے۔ یہاں ایک نیا کردار شامل ہوتا ہے۔
یہ ہیں وکیل صاحب، واٹس ایپ وار کو ختم کرانے میں ان کا کردار وہی ہے جو امنِ عالم کے قیام میں اقوامِ متحدہ کا ہے۔ جیسے نشینی کی کمزوری نشہ، شیخ کی عبادت اور رند کی کمزوری شراب ہوا کرتی ہے ایسے ہی ان کی کمزوری “بوتل” ہے۔ یہاں بوتل سے مراد شراب نہیں بلکہ وہ شربتِ معطر ہے جو ملاّ مسجد میں بھی پینے سے نہیں چوکتا اور کالج کے لونڈے سرِ عام، پان کی دکانوں کے سامنے کھڑے ہو کر پیتے ہیں۔ ان کی رگ رگ میں پنجابی سرائیت کیے ہوئے ہے۔ ایسی ایسی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں جنہیں بطور پنجابی میں نے زندگی میں کہیں نہیں سنا۔ ایسی ہی ایک اصطلاح ہے “کینڈی”، مگر اس کی وضاحت پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ ہاں ان کا اہم کارنامہ “پھدوازم” کی تحریک کا آغاز کرنا اور اسے مقبولیت عام دلانا ہے۔ پھدوازم کا اطلاق اس ہوٹل کے عملہ پر ہوتا ہے جو ہمارے ہاسٹل کے عین نیچے واقع ہے۔
آئیے آپ کو ہوٹل کے عملہ سے چائے پلاتے ہیں۔ “یہ کیا ایک گھنٹہ ہوا چائے کا آرڈر دئیے، مگر ابھی تک چائے نہیں آئی۔” بس یہی ہے ہوٹل کا عملہ اور یہی ہے پھدوازم کا نکتہ آغاز۔
آئیے آپ کی ملاقات اپنے ہاسٹل کے منفرد کردار سے کرواتا ہوں۔ یہ ہیں ایک ایسے نوجوان شخص جن کی عمر ساٹھ سال سے کچھ پرے ہے۔ ان کا مشغلہ ہے پودے اگانا اور ان پودوں پر سے پھول توڑنے والوں کو نئی نئی مغلظات سنانا۔ ان کے پاس کئی اقسام کے کتے ہیں جو پھول توڑنے والوں کی پوری نسل پر چھوڑے جاتے ہیں۔
اور بھی کئی کردار ہیں جن میں مسٹر پڑھاکو اور خدائی جاسوس وغیرہ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں مگر ان کی شان میں قصیدہ لکھنا، اپنی شان میں مرثیہ لکھنے سے کہیں زیادہ کٹھن کام ہے۔ اس لیے اجازت دیجئے۔