ایک دوست کا اپنے دوست کے ہاسٹل وارڈن کے نام خط (طنز و مزاح)

یہ تحریر 176 مرتبہ دیکھی گئی

عنوان:- ایک دوست کا اپنے دوست کے ہاسٹل وارڈن کے نام خط (طنز و مزاح)
لکھاری:- علی حسن اویس

انتساب:- کمرہ نمبر 07 کے نام
سلام!
وارڈن صاحب میرے سوا ادھر سب ہشاش بشاش ہیں اور آپ کی خیریت نیک مطلوب۔ تین دن سے معدہ خراب ہے اور پیٹ میں ہول اٹھتے ہیں۔ مگر ہول اٹھنے کی وجہ ہاضمہ کا عارضہ نہیں بلکہ چند باتیں ہیں جو آپ کو بتانا ہیں، امید ہے کہ آپ کو وہ سب بتاتے ہی میری طبیعت بھی سنبھل جائے۔ معاملہ یہ ہے کہ میرا دوست جو دوست کم باپ زیادہ ہے، آپ کے ہاسٹل میں قیام رکھتا ہے۔ (یہاں باپ سے مراد نجس مغلظ تجربات کا وسیع ذخیرہ رکھنے والا شخص ہے) میں آپ کو اس کی چند خفیہ خصلتیں بتانے کو، خط لکھ رہا ہوں۔ مگر اس سے قبل، آپ کو وعدہ کرنا ہو گا کہ کسی بھی صورت یہ خط میرے کمینے دوست کے ہاتھ نہ لگے۔ اگر یہ خط اس کے ہتھے چڑھ گیا تو ہو سکتا ہے کہ میں ہسپتال پڑا ہوں، وہ جیل میں اور آپ منکر نکیر کے سامنے صوم و صلوٰۃ کا حساب کتاب کلیر کر رہے ہوں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر خصلتیں ہی بیان کرنا تھیں تو خط کی رسماً ابتداء کیوں کی۔ اس کے باوجود کہ ایسے خطوط کی ابتداء کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں، میں آپ کو اپنی مجبوری بتائے دیتا ہوں تاکہ آپ اس رسمی، غیر رسمی کی کشمکش میں کہیں خط کو غیر ضروری سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں نا پھینک دیں۔ اور کہیں ایسا نا ہو کہ میرا کچرا نما دوست اس تک رسائی حاصل کر لے۔ بات کچھ یوں ہے کہ رمضان کا مہینہ ہے اور تمام شیطانی اعمال سرداروں کی قید کے سبب تعطل کا شکار ہیں۔ سو، شیطانی الفاظ بیان کرنے کو تمہید باندھنا ضروری تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ خط کا آغاز رسمی حال احوال سے کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اگر غلطی سے یہ خط میرے ندیدے دوست کے ہاتھ لگ بھی جائے تو مخلصانہ فضا کو دیکھتے ہوئے وہ اسے اپنے متعلق خیال نہ کرے۔ وجہ یہ کہ اس کو کبھی بھی اچھے لفظوں سے مخاطب نہیں کیا گیا۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ جب وہ پیدا ہوا تھا، ڈاکٹر کی چیخ اس کے رونے سے زیادہ بلند تھی۔
اچھا تو بات یہ ہے کہ میرا یہ حرامی دوست بالغ پن کی دہلیز سے دو چار قدم پرے ہے، اور وہ فلمیں شوق سے دیکھتا ہے جو نابالغوں کے لیے زرا قبل از وقت ہوتی ہیں۔ اس لیے اس کے ساتھ کوئی ایسا طالب علم نہ ٹھہرایا جائے جو ہیر کو رانجھا کی بہن تصور کرتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ بچے، پریاں چھوڑ جاتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ زرا زبان کا زیادہ میٹھا ہے۔ جب کسی سے بات کرتا ہے تو ماحول اس قدر رسیلا ہو جاتا ہے کہ مخاطب پر مکھیاں بھنبھنانے لگتی ہیں۔ اس کوفت سے بچنے کے لیے اسے پھیکی چیزیں زیادہ کھلائی جائیں ورنہ نتائج کے زمہ دار آپ خود ہوں گے۔
راز کی بات ہے، مگر آپ کو بتائے دیتا ہوں تاکہ آپ بمعہ ہاسٹل کی تمام مخلوق محتاط ہو جائیں۔ میرا یہ بے چارہ دوست عشق میں ہمیشہ ادھورا رہا۔ چار عشق کیے مگر اب حالت یہ کہ تین معشوقوں کے بچے اسے ماموں اور ایک کے بچے چاچو کہتے ہیں۔ اسی لیے محلے میں اسے “نکما مجنوں” کہا جاتا ہے۔ مگر اس کے ہتھ چھٹ مزاج کے کارن کوئی اسے براہ راست اس نام سے مخاطب نہیں کرتا۔
آپ سب بھی محتاط رہیے گا کہ اس کے سامنے کبھی یہ نام نہ لیا جائے، ورنہ نام لینے والے کا ہاتھ گلے میں ہو گا اور گریبان دامن میں۔
ایک اور بات کہ رات بارہ سے دو بجے کے دوران اس کے مراقبے کا وقت ہوتا ہے۔ اس دوران اس کے بستر سے نورانی شعاعیں نکلتی ہیں اور منہ سے عجیب و غریب آوازیں۔ مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں، مراقبہ کا وقت ختم ہوتے ہی طبیعت معمول پر آ جاتی ہے۔
ویسے جو کچھ بھی ہو، میرا دوست ہے بڑا ٹیلنٹڈ۔ گانا گانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اگر کبھی ہاسٹل سے چوہے، مچھر اور اس طرح کی دیگر مخلوق کو بھگانے کی ضرورت پڑے تو اسے پانچ منٹ گانے کی اجازت دی جائے۔ اگر ہاسٹل کی فضاء حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق نا ہو گئی تو پھر کہیے گا۔ مگر اس عمل سے قبل یہ احتیاط لازم ہے کہ تھانے میں کچھ لفافے بھیج دیے جائیں، ورنہ ہمسایہ عمارتوں سے دو تین پرچے ہوں گے اور آپ کو تین چار دن پولیس کا مہمان ہونا پڑے گا۔
آپ سے گزارش ہے کہ جس لڑکے کو بھی آپ اس کا روم میٹ بنائیں، اسے یہ بتا دیجیے گا کہ اس کی کسی بھی چیز کو چھونے سے پہلے یہ بات جان لے کہ اس کے پاس کئی اقسام کے کتے ہیں جو اس کی پوری نسل پر چھوڑے جانے کا قوی امکان ہے۔
کچھ اور بھی خوبیاں ہیں مگر وہ بعد میں آپ کو لکھوں گا، ابھی اسی کمینے کی کال آ رہی ہے۔ میں کال سنتا ہوں اور آپ یہ خط پڑھیے۔
وسلام
آپ کا خیر خواہ
فلاسفر شیدا