ادھورا خط

یہ تحریر 519 مرتبہ دیکھی گئی

میں تمہیں خط لکھنے بیٹھتا ہوں مگر سلام کے بعد کوئی بھی لفظ لکھ نہیں پاتا۔ بات کیا لکھوں سے کیوں لکھوں تک پہنچ کر الجھ جاتی ہے اور میں خط ادھورا چھوڑ کر کسی کتاب میں کھو جانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ادھورا خط چھوڑ کر کتابوں کی الماری کی طرف جاتا ہوں تو وہاں سب ادھوری کتابیں ملتی ہیں۔ جن کے عنوان کچھ یوں ہوتے ہیں: ادھورے خواب ، ادھوری خواہشیں ، نامکمل مضامین ، ادھوری تھیوریاں، ادھورا فلسفہ، ادھورے خدا، ادھورے مذہب ، ادھورے معاشرے ور ادھورے آدمی۔ ان سب کتابوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ تمہیں خط بھیج ہی دوں۔ جس طرح یہ ادھوری کتابیں سمجھ لی جاتی ہیں شاید تم بھی میرا ادھورا خط دیکھ کر سمجھ جاؤ کہ میں کیا اور کیوں کی الجھن میں پھنس گیا ہوں۔ مگر سوچتا ہوں کہ سلام کے بعد نہ لکھے جانے والے الفاظ کی زبان تمہیں آتی بھی ہو گی یا نہیں۔ کبھی سوچتا ہوں کہ تمہیں ادھورا خط بھیج دوں۔ کبھی خیال آتا ہے کہ تمہیں ادھوری چیزیں پسند نہیں۔ ایک بار تم نے کہا تھا کہ یہ جو آدھے ادھورے مناظر ہیں ان سے تمہیں سخت نفرت ہے اور تم کسی مکمل منظر کو دیکھنے کی تمنا رکھتی ہو۔ جب اس بات کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کہیں ادھورا خط دیکھ کر تمہیں مجھ سے نفرت نہ ہو جائے۔ مگر کیا کروں میں کیا اور کیوں کے درمیان پھنس گیا ہوں۔ سلام کے بعد الفاظ الجھن کے تلاطم میں بہہ جاتے ہیں۔ میں تمہیں ایک مکمل خط لکھنا چاہتا ہوں۔ ایسا خط جس کا عنوان ادھوری محبت کو مکمل کرنے کی تمنا ہو۔ ایسا خط جس میں بات ادھورے پن سے مکمل پن کی جانب بڑھے۔ مگر کیا کروں میں الجھن میں ہوں کہ میں کیا لکھوں اور کیوں لکھوں۔ میرے خیالات ادھورے ہیں، میرے جذبات ادھورے ہیں۔ اس ادھورے پن میں دلیل کا در آنا ممکن ہی نہیں۔ میں کیا اور کیوں کے درمیان پھنس گیا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ تمہیں ادھورا خط بھیج دوں اور ادھورے عشق کا ادھورا خواب بننے لگوں۔ مگر تمہیں ادھورے پن سے نفرت ہے۔ تم ہمیشہ مکمل پن کا نظارہ کرنا چاہتی ہو۔ کہیں تم میرا ادھورا خط دیکھ کر نفرت کا اظہار نہ کر دو۔ ایسی نفرت جو کہ مکمل ہو۔ تمہیں ادھورے پن سے نفرت ہے۔ مگر میں کیا کروں ، کیا اور کیوں کی الجھن میں پھنس گیا ہوں۔ سلام کے بعد کچھ لکھ نہیں پاتا اور یہ سوچنے لگتا ہوں کہ تمہیں کیا لکھوں اور کیوں لکھوں۔۔۔