کہانی در کہانی

یہ تحریر 396 مرتبہ دیکھی گئی

– دسویں کہانی:

“درخت” سکول سےایم آئی ٹی تک:انجینئرجاویدعزیز کی کہانی:: کسی کوگھرسے نکلتے ہی مل گئی منزل کوئی ہماری طرح عمر بھرسفر میں رہا

اواخر ۱۹۴۷میں جموں(کشمیر)سے ایک مختصر سا قافلہ پنڈت رام لعل سےہدایات لے کربس میں سوارہوتا ہے،منزل کا کسی کوعلم نہیں اور نہ ہی یہ یقین کہ وہ منزل تک پہنچ بھی پائیں گے!

اس قافلے میں اپنےوالدین کے ہمراہ چار سال کاایک لڑکااوراُس کا بھائی شامل ہے،بے سروسامانی کے عالم میں لڑکے کی والدہ ایک پیپےمیں آٹا بھر کر رکھ لیتی ہیں تاکہ کم از کم سوکھی روٹی تو میسر ہو سکے کٹھن منازل طےکرتےہوئےیہ قافلہ گوجرانوالہ پہنچ کر پڑاؤ کرتاہے،روٹی پکانےکے لئےجب آٹےکا پیپا کھولا جاتاہے توحیرت انگیزطور پراس میں سے آٹے کی جگہ کتابیں نکلتی ہیں جو لڑکےکےبھائی نےماں کی آنکھ چُرا کر آٹا پھینک کرٹھونس ٹھانس کے چلتےوقت پیپےمیں بھردی تھیں اب یہاں سےاصل کہانی کاآغازہوتاہے یہ چار سالہ لڑکاجموں کے معزز خاندان کا چشم وچراغ تھاجو آج کل انجینئر جاوید عزیز کے نام سے
جانے جاتے ہیں اوراُن کا بھائی جو پیپےمیں آٹے کی جگہ کتابیں رکھ کر لایا تھاشہرت یافتہ ماہر معیشت ڈاکٹر محبوب الحق تھےاور یہ دونوں ماہر تعلیم شیخ عبدالعزیزکےصاحبزادے ہیں ،شیخ عزیز صاحب نے ہجرت کےبعدپاکستان آتے ہی ایک جدید منفرد ومتنوع طرز تعلیم کی بنیاد رکھی جوآج “عزیز وے آف ایجوکیشن”کےنام سے جاناجاتاہےاس طریق تعلیم میں تدریس کی بنیاد یادداشت کےبجائےتشویش وتحقیق پررکھی گئی تھی،اس علمی وتعلیمی پس منظر میں ان دونوں بھائیوں کی پرورش وپرداخت ہوئی اور پھر دونوں علمی وسائنسی اُفق پر روشن ستارے بن کر چمکے،یہاں میں محمدعبدالعزیز شیخ کاذکر کروں گا،میری خوش قسمتی کہ میں نہ صرف اُن کو ملاہوں بلکہ بارہا اُن سےگفتگو بھی کی ہے،قصہ یوں ہے کہ میں نےششم سےمیٹرک تک مسلم ہائی سکول ۲سےتعلیم حاصل کی ہے، یہ سکول کچہری کے عقب میں اُس سڑک پرہےجولوئر مال روڈ تھانے سے گزر کر اُردو بازارجاتی ہے، جونہی ہم اُردو بازارمیں داخل ہوں تو دائیں ہاتھ مسلم ماڈل ہائی سکول کابورڈ نظر آتا ہےجس کے بالمقابل کتابوں کی ایک بڑی دوکان فردوس بک ڈپوہواکرتی تھی (اُس دوکان میں آج کل کتابوں کی بجائےاسٹام پیپر بکتے ہیں مگر الحمدُلللہ وہ سکول اب بھی قائم ہے)میرااس سکول سے پہلاتعارف تب ہوا جب یہ سکول مڈل اینگلو ورنیکلر امتحان میں میرا امتحانی سنٹر بناتھاامتحان کےدوران میں مجھےجن دوباتوں نے بہت متاثر کیااُن میں ایک سکول کا ڈسپلن تھا اور دوسری سکول کے ہیڈماسٹر شیخ عبدالعزیز کی پُرکشش شخصیت تھی، آج بھی شیخ صاحب کی تصویرمیری نظروں کےسامنے آرہی ہے،تھری پیس سوٹ میں باوقار انسان کہ بندہ دیکھتا ہی رہ جائے-منتظرکب سے تحیر ہے تری تقریر کا/بات کر تجھ پرگماں ہونےلگا تصویر کا-میرا دل چاہابات کی جائےاور جب ڈرتے ڈرتےبات کی توعالم کچھ اورہی تھا:


سناہےبولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہےتو چلوبات کر کے دیکھتے ہیں

شیخ صاحب اتنے خلیق اور خاکسار تھےکہ بچے خوف کی بجائےاُن سے محبت کرتے تھےاور اسی لئے مجھے بھی متعدد باراُن سے ملنے کا موقع ملتا رہا-یہاں اُن کے ایک طالب علم کاحوالہ برمحل ہوگا،طالب علم بھی کوئی عام نہیں بلکہ ارشاد حسن خان چیف جسٹس (ریٹائرڈ) سپریم کورٹ آف پاکستان، وہ لکھتے ہیں: “مسلم ماڈل ہائی سکول میں داخل ہوا ڈاکٹرمحبوب الحق (سابق وزیر خزانہ) کےوالد عبدالعزیز شیخ وہاں ہیڈ ماسٹر تھے،میراتعلیم کےلئے شوق زوروں پرلیکن معاشی حالات بہت خراب تھے،ایک دن میں اُن کےآفس میں گیااوراُن کوبتایا کہ میں سکول چھوڑ رہاہوں اب میں تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتا، اُنہوں نےنرمی کےساتھ دریافت کیا کہ تعلیم جاری نہ رکھنے کی وجہ کیا ہے؟میں نےسنجیدہ لہجے میں کہاسر آپ کااس بات سےکوئی تعلق نہیں کہ میں تعلیم کیوں جاری نہیں رکھنا چاہتا،انہوں نے میری سخت بات کی طرف دانستہ توجہ نہ دی اورایک بار پھرنرمی سے تعلیم جاری نہ رکھنے کی وجہ پوچھی پھر خود ہی کہا کہ اگر فیس کامسئلہ ہےتومیں آپ کی فیس معاف کردیتا ہوں،میں پھر بھی نہ مانااُنہوں نے مجھےسٹیشنری،کاپیوں اور یونیفارم کی پیشکش کی اور کہا کہ سکول آپ کی دیگر ضروریات بھی پوری کرےگا،تو میں نے ہیڈ ماسٹر صاحب سے عرض کیا،آدھی چھٹی کے وقت میرے ہم جماعت اور دوسرےلڑکےاپنے جیب خرچ میں مختلف چیزیں خریدتےہیں میں کیسے خریدوں گا؟اُنہوں نےسکول فنڈ سےمجھےفنڈ جاری کر دیایوں میں نے تعلیم جاری رکھی،( ارشاد نامہ: خود نوشت)میں لکھنےجاوید عزیزپر بیٹھا تھا مگرسلسلہ شیخ عبدالعزیز کا شروع کر دیا خیر کوئی بات نہیں- باپ پہ پوت پتا پر گھوڑا/بہت نہیں توتھوڑا تھوڑامگر یہاں تومعاملہ بہت بہت کاہے یہاں غالب کاایک قصہ یاد آگیا،ہوا یوں کہ اُنہوں نے ایک نواب کا قصیدہ کہااور اُن کو ابھی بھیج بھی نہ پائےتھے کہ نواب صاحب کاانتقال ہوگیاغالب فنکار تو تھے ہی جھٹ قصیدے سےنواب کا نام کاٹااوراُن کےجانشین فرزند کا نام لکھ کر قصیدہ روانہ کردیا،جب یار لوگوں نےاعتراض کیاتوغالب بولے جب الللہ نے اُن کو نواب کی جگہ بٹھایا ہے تو میں نے ایسا کیا غلط کر دیا-علامہ اقبال نے کہا تھا: باپ کا علم نہ بیٹے کو اگرازبر ہو/ پھر پسرقابل میراث پدر کیوں کرہو، مگریہاں تومعاملہ بالکل سیدھاہےکہ شیخ عزیزصاحب کے لائق فرزند تو حقیقتا”قابل میراث پدر ہیں چنانچہ کہانی کوایک مرتبہ پھر جاویدعزیز کے درخت سکول ہی کی طرف موڑتے ہیں،ہجرت کی بےبسی کےعالم میں جب یہ خاندان گوجرانوالہ پہنچا تو خاندان کےسربراہ عزیز شیخ نے از سرنو زندگی کا آغازکیامہاجرین کوجب الاٹمنٹ کاسلسلہ شروع ہوا تو ایک دوکان اُن کےنام الاٹ ہوگئی اور یہ صاحب علم انسان روزی روٹی کمانےکےلیے بہ نفس نفیس دوکان چلانے لگا اورسب سے پہلے بچوں کی تعلیم پر توجہ دی،جاویدعزیز نے پہلی دو کلاسیں اپنی والدہ سے پڑھ رکھی تھیں چنانچہ تیسری کلاس میں وہ مشن مڈل سکول میں داخل کروا دئے گئے-کہتے ہیں مصیبتیں گھر ہی دیکھ لیتی ہیں،کچھ دنوں بعد شہر میں شدیدبارش میں اس کچےسکول کی عمارت زمیں بوس ہوگئی اورسکول اب درختوں کی چھاؤں میں کام کرنے لگا،ایک درخت جاویدعزیز کی کلاس کےحصے میں بھی آیا،اسی درخت سکول سے جاویدعزیزکے تعلیمی سفر کا آغازہوااورانجا م ہاورڈ اور ایم آئی ٹی جیسی دنیا کی بہترین درسگاہوں میں ہواکہانی آگے بڑھتی ہےاوراب ہوا یہ کہ اُن کاخاندان گوجرانوالہ سےلاہور شفٹ ہوگیا اور اُن کاتعلیمی سلسلہ یہاں سے شروع ہواوہ جوکہا جاتاہے کہ ہونْہار بروا کے چکنے چکنے پات ،ابھی وہ میٹرک ہی میں تھےکہ جاویدعزیزکےذہن میں طرح طرح کےعلمی سوالات نے کلبلاہٹ پیدا کرناشروع کردی تھی،ان ہی دنوں یو این او کی نئی عمارت کی تازہ تازہ تکمیل ہوئی تھی اوراس میں لگائے گئےساؤنڈسسٹم کی بڑی دھوم تھی،اس منفردسسٹم کی تنصیب ایم آئی ٹی کےمعروف پروفیسر نئیومن نے کی تھی-جاوید عزیز کو بچپن ہی سے ساؤنڈ سسٹم میں دلچسپی تھی اور وہ اپنے بچپن میں دو ڈبوں کو تندی کےساتھ جوڑ کر ٹیلیفون بنایاکرتے تھے،اُن کی یہ تخلیقی اُپچ اُنہیں کب نچلا بیٹھنےدیتی فورا”پروفیسرنئیومین کو خط لکھ مارا کہ وہ امریکہ آکرساؤنڈسسٹم پراُن کے ساتھ کام کرنا چا ہتےہیں،پروفیسرنے جاوید عزیزکوخط لکھاابھی نہیں بلکہ گریجوایشن کرنے کے بعد وہ امریکہ آئیں،اگر تب تک وہ زندہ رہے تو ضروراُن کےساتھ کام کر یں، اب قسمت کی یاوری دیکھئے کہ پھربالآخر جاویدعزیزنےنہ صرف پروفیسرنئیومین کےساتھ ریسرچ کی بلکہ اُن کی کمپنی میں کام بھی کیاخیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا اب پھر اپنےموضوع کی طرف آتےہیں-لاہور آکر جاویدعزیز نے مُسلم ماڈل ہائی سکول سے میٹرک کیا،گورنمنٹ کالج لاہور سے انٹر اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ سےسول انجینئرنگ میں ڈگری لی اورپھر اسی یونیورسٹی کی فیکلٹی میں بھی آگئے-تقدیرکے کھیل عجیب ہوتےہیں کہ انسان کومعلوم نہیں ہوتا کہ اگلا لمحہ اُس کےلئے کیالائے گا اور آئندہ قدرت نےاُس کے لئے کونسا رستہ بنایاہواہے،پھر جاویدعزیز جیسےمحنتی اوراسماعیل پانی پتی کی چکی طرح ہمیشہ کام میں جُتےرہنے والےکے لئےالللہ تعالیٰ ایک نہیں کئی ایک راستے کھول دیتا ہے؀نہرپرچل رہی ہےپن چکی/دُھن کی پوری ہے کام کی پکی- جاویدعزیز فطری طور پر مخلص،رحم دل،انسان دوست اور وطن پرست انسان ہیں مجھ سے جب بھی بات ہوتی ہے بس یہی موضوعات زیر بحث آتے ہیں اُن کابس چلےتوپاکستان کےغریب مگر ذہین نوجوانوں کوامریکہ کی چوٹی کی یونیورسٹیوں میں داخل کروا کردم لیں اوراُن کےاخراجات بھی خود اپنی جیب سےادا کریں، جاوید عزیز کےاتنے گُن ہیں کہ گنوائےنہیں جا سکتے ، وہ حقیقتا”بڑےآدمی” ہیں جو ہر وقت الللہ کے بندوں کی خدمت کے لئے ہاتھ کھولے کھڑے رہتے ہیں-ہاتھ ہی نہیں بوسٹن میں اُن کے گھر کے دروازے بھی یہاں ہر نئےآنےوالے طالب علم کے لئے کھلے رہتے ہیں-اب ہم اس بڑے آدمی انجینئر جاوید عزیز کی کہانی کو ایک اور بڑےآدمی کی کہانی کے ساتھ انجام تک پہنچاتے ہیں – فرینکلن بنجمن سےکون واقف نہیں، معروف امریکی سائنسدان اور منفرد سیاستدان کہ جس نےامریکا کی آزادی کی دستاویز پر دستخط کئےتھے یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہےکہ فرینکلن بنجمن کاتعلق بھی جاوید عزیز کے شہر بوسٹن سےتھامیری نظرسے بنجمن پر لکھا گیا یہ مختصر شذرہ گزرا ہے جو”بنجمن لائبریری” کےفرینکلن بنجمن کےموضوع پر مقابلۂ مضمون نویسی میں انعام کا حقدارقرار دیا گیا گیا تھا-

“میں رات بھربنجمن فرینکلن پر لکھنے کی کوشش کرتا رہامگر نہ لکھ پایا،صبح کوجب گھرسےباہر آیاتو کیادیکھتا ہوں کہ میرا بیٹا ادھر اُدھر بھاگ رہا ہے کبھی وہ اپنی مٹھی کوبندکرتا اورکبھی کھول دیتاہےمیں نےپوچھا کہ یہ کیا کررہے ہو،کہنے لگاسورج کی شعاؤں کو قیدکر رہاہوں،سورج کی شعاعوں نےتو کب قیدہونا تھامگرمیں سمجھ گیا کہ بنجمن کی ہزار پہلو شخصیت پر کچھ لکھناسورج کی کرنوں کومٹھی میں بند کرنےکے برابر ہے‘‘۔

بس میرا عجز بھی یہی ہے کہ انجینئر جاوید عزیز کی ہزار پہلو شخصیت پر لکھناسورج کی کرنوں کومٹھی میں بند کرنے کے مترادف ہے-

————————————