کہانی در کہانی

یہ تحریر 350 مرتبہ دیکھی گئی

رنگا رنگ بزم آرائیاں:

گورنمنٹ کالج لاہور کا شعبۂ اُردو:

یادش بخیراسی کی دھائی کا ذکر ہے میں اُن دنوں گورنمنٹ لاہور کے شعبۂ اُردومیں تھا جو اُن دنوں شعر وادب کا مرکز تھاکہ قومی اور بین الاقوامی شہرت کے حامل بڑے نام اس شعبہ میں موجود تھے،غلام الثقلین نقوی،صابر لودھی، مرزا محمد منور، میرزاریاض،صدیق جاوید،ڈاکٹر معین الرحمان، ڈاکٹرحسن اختر ملک جعفر بلوچ،مشرف انصاری،سعید مرتضیٰ زیدی,علی ظہیرمنہاس،ڈاکٹر سلیم اختر،مشکورحسین یاداور خواجہ محمدسعید،یہ سب اپنےاپنے میدان میں بڑے نام ور تھےمجھے بھی کچھ عرصہ قبل اپنی پہلی کتاب “اُردو میں قومی شاعری” پر داؤدادبی انعام مل چکا تھا چنانچہ میں بھی تھوڑی بہت شہرت رکھتا تھا( اپنے بارے میں میرے اس جملے کو جملۂ معترضہ ہی سمجھا جائے )کلاسوں کےبعد پروفیسرزروم میں چائےکے دور کے ساتھ ساتھ ادبی بحثوں کاسلسلہ بھی چلتارہتاتھاجو ہم نو آموزوں کی علمی استعداد بڑھانے اور ادبی تربیت کا باعث بنتا تھا، اُس دورکےدوبڑے ادبی گروپوں یعنی وزیرآغا اور احمد ندیم قاسمی گروپ کی واضح تقسیم بھی ہمارے شعبے میں تھی، غلام الثقلین نقوی،وزیر آغاجب کہ مشکورحسین یاد قاسمی گروپ کے سر خیل تھے، ہم جیسے جونئیر غریب غُربے دونوں طرف بیٹھتے اور ہاں میں ہاں ملاتے رہتے تھے-کیا اچھے زمانے تھے کہ ادبی بحث و تمحیص کا یہ سلسلہ بس اساتذہ کے کمروں تک محدود رہتا، ان سے باہر کسی کو اس کی بھنک بھی نہ پڑتی تھی اور نہ ہی ہی یہ شعبے کی معمول کی ادبی سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتا تھا کہ ان میں بغیر تعصبات کے سب ادیبوں کو بلایا جاتا تھا-ٹائم ٹیبل کےمطابق اُردو کی کلاسیں صبح نوبجےسےشام چار بجے تک ہوتی تھیں شام کو سائنس کے طلبہ کی کلاسیں فزکس ڈپارٹمنٹ میں ہوتیں جوعموما” جونئیراساتذہ لیتے تھےدن کی کلاسیں ایک بجےتک ختم ہو جاتیں پھردو بجے تک کھانے اور نماز کا وقفہ ہوتا،پری انجنیئرنگ کی کلاسیں مجھے اورجعفر بلوچ کودی گئی تھیں صدیق جاویداورمرتضیٰ زیدی پری میڈیکل کلاسیں لیاکرتے تھے وقفہ میں جعفر اور میں نیو ہاسٹل کےمیس میں کھانے کے لئے ایک ساتھ جاتےتھےوہاں کبھی کبھی شعبے کے شعبےکےدیگر اساتذہ بھی ہوتے-کھانا بہت لذیذ ہوتا یا شاید دوستوں کی گپ شپ کی وجہ سے ہمیں لذیذلگتا تھا بہرحال مزےکے دن تھے،جوانی کی راتیں مرادوں کے دن- یہاں ایک لطیفہ یاد آگیا،ہوا یوں کہ ایک دن ہمیں صابرلودھی جو اُن دنوں شعبے کاٹائم ٹیبل بنایا کرتےتھےمیس میں مل گئےجعفربلوچ کومعلوم نہیں کیا سوجھی کہ بولےصابرصاحب ہم کو بھی مرنا ہے، بیمار ہوناہے،ہسپتال جاناہےصرف صدیق جاوید یامرتضیٰ زیدی ہی کونہیں(افسوس کہ یہ سب اب مرحومین میں شامل ہیں) صابر صاحب نے حیرت سے پوچھا کیوں کیاہوا؟جعفربلوچ بولےہمارے لئے ہر دفعہ پری انجینئرنگ کی کلاس ہی کیوں؟اس کے بعد سے ٹائم ٹیبل میں پری میڈیکل کی کلاسیں ہمیشہ جعفر بلوچ کے نام لکھی جاتی تھیں ہمارےسنیئرُاساتذہ میں سےہر ایک اپنی ذات میں ایک انجمن تھا اور ان کی شہرت چار دانگ عالم میں تھی،اب سنئے چند کہانیاں ان جید اساتذہ کی-

خواجہ محمدسعیدصاحب میرےاستاد تھے-ہمارے دورمیں یہ رواج تھا کہ ہمیشہ ایک استاد گورنمنٹ کالج سے اوریئنٹل کالج میں پڑھانے کے لئے آیا کرتے تھے جوعموما” صدرشعبہ ہی ہوتے تھے-ہمیں اُن دنوں یکے بعد دیگرے بشیر الرحمان صاحب اور خواجہ سعید صاحب نے پڑھایا تھا-
خواجہ صاحب انتہائی نستعلیق،دھیمے مزاج کے خاموش طبع انسان تھے اور وہی مجھے گورنمنٹ کالج لانے کا باعث بھی بنےتھےہوا یوں کہ میں اُن دنوں باغبان پورہ کالج میں تھا-جی-سی- میں ایک لیکچرر کی گنجائش پیدا ہوئی تو خوش قسمتی سے خواجہ صاحب کے ذہن میں میرا نام آگیا اور اُنہوں نے مجھے پیغام بھجوایاکہ جلدملوں میں موقع کی نزاکت نہ سمجھ سکااوراُنہیں جلدنہ مل سکامگر قدرت کو تو کچھ اورہی منظورتھا، ایک دن میں کالج سے فارغ ہوکرگھر جارہاتھا کہ انارکلی چوک پرلال بتی کےاشارہ پر رکنا پڑا،میرے پیچھے ہی ایک کار آکررُکی اور مجھے ہارن کی آواز سنائی دی،میں سمجھا کاروالا راستہ مانگ رہا ہےمگرجب پیچھے مڑ کردیکھاتوڈرائیونگ سیٹ پر استاد محترم خواجہ صاحب نظر آئےجو مجھےاشارےسےبلارہے تھےاسی اثنا میں اشارہ کھل گیااور اُن کی گاڑی آگےجاکر رک گئی میں لپک کر قریب ہوا تو سلام دعا کے بعد خواجہ صاحب بولے کہاں ہو؟کب سے تم کو تلاش کر رہا ہوں، ابھی میرے پیچھے پیچھے گھر آجاؤ-اُن دنوں کار سٹینڈ کے سامنے گورنمنٹ کالج کےاساتذہ کی رہائش گاہیں ہوتی تھیں،خواجہ صاحب پہلی کوٹھی میں رہائش پذیر تھے-بہرحال مجھےڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کباب اور چائے سےتواضع کی،میں اُٹھنےلگاتوایک کاغذ میرے ہاتھ میں تھماکر کہاکہ ٹرانسفر آرڈر کی کاپی لوصبح آجانا اور یہاں جوائن کر لینا، میں نے ڈاکٹر اسلم قریشی سےکہہ دیا ہے وہ آپ کو کل ریلیو کردیں گےڈاکٹراسلم قریشی باغبان پورہ کالج میں میرے پرنسپل اوربہت بھلے مانس انسان تھےمجھے بغیر ردوکد کے فارغ کردیابلکہ کہاکہ تم فورا”چلےجاؤچارج واپس آکر دے دے دینا یہ مواقع روز روز نہیں ملتے بس اس طرح میرا گورنمنٹ کالج آنا ہوا اوراس کے بعد میرے لئے ترقی کےدروازے کھلتے ہی چلےگئے یہاں قرآن حکیم کی یہ آیت برمحل معلوم ہوتی ہے: (اور الللہ ایسی جگہ سےروزی دیتا ہےجس کا اسے (انسان) کو گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گاالللہ اسے کافی ہوگا)- ابتداءمیں مجھےمشرف صاحب کے کمرے میں بیٹھنے کا موقع ملا جوانتہائی نستعلیق، کم گو،خوش طبع اور عالمانہ اطوار کے انسان تھے- وہ لوگوں سے زیادہ کُھلتےنہیں تھے مگر میرے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے تھے اور دو چار ملاقاتوں کے بعد ہی کُھل بھی گئے تھے،کبھی کبھی گھر پر بھی بلاتےاور پرتکلف کھانوں سے سےتواضع کرتے تھے، اُن ہی کے گھرپرایک آدھ مرتبہ میری اُس دور کے چیف جسٹس محمدحلیم سے بھی ملاقات ہوئی جومشرف صاحب کے قریبی عزیز تھےجعفر بلوچ سےمیری تب سے واقفیت تھی جب وہ لیہ ہائی سکول میں ٹیچرتھےاوراکثر و بیشتر کشفی ملتانی کوملنےمظفرگڑھ آیا کرتے تھے زودگو شاعراوربلاکےبذلہ سنج تھے-میرا اُن کابڑا دوستانہ اور لمبا ساتھ رہا-جعفر مست ملنگ تھا، نہ کسی لینے میں نہ دینے میں ، وہ تو بس میر انیس کی اس روش پر چلتا تھاکہ -نافہم سے کب دادِ سخن لیتا ہوں/ دشمن ہو کہ دوست سب کی سُن لیتا ہوں/چھپتی نہیں بوئے دوستان یک رنگ/کانٹوں کوہٹاکےپھول چُن لیتاہوں،اگرکسی ساتھی کے بارے میں کہوں کہ وہ سراپا محبت تھے تو ایک ہی نام زبان پر آتاہےاور وہ غلام الثقلین نقوی کا ہےجو درویش منش، مرنجاں مرنج ،پُرخلوص شخص تھے-صابر لودھی کا توکہناہی کیا وہ انسان دوستی اورحاجت روائی میں کمال درجے پر فائز تھےکسی کو خالی نہیں لوٹاتے تھے کام ہو نہ ہو ساتھ چل پڑتے تھےخود میرےساتھ ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا،بہت پہلے ریڈیوپاکستان کے راولپنڈی سٹیشن میں بطور پروگرام پروڈیوسر تقرر ہوا توجوائننگ کےلئے اسنادکی مصدقہ نقول ساتھ لے جانا تھیں، تصدیق کے لئےکسی گزیٹڈ آفیسر کی تلاش کا مرحلہ درپیش تھا-اس کام کے لیے گورنمنٹ کالج گیامگرشام ہوچکی تھی کالج بند تھاواپس آرہا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کےسامنے صابرصاحب مل گئے،اُن سےواقفیت نہیں تھی بس صاحب سلامت تھی، میں نے مدعا بیان کیااُلٹے پیر لوٹ آئے اور کالج میں اپنے کمرے میں لے گئے الماری سے مہرنکالی میرے تمام کاغذات پر دستخط کے ساتھ مہر لگا کر میرے حوالے کئےاسے کہتے ہیں حاجت روائی،صابر لودھی کی مشکور حسین یادکےساتھ گہری دوستی تھی یاد صاحب اپنےہی ڈھنگ کےآدمی تھے،بذلہ سنج،خوش باش، کُھلے ڈُلے ہمہ وقت ہنستے مسکراتے رہتے، سب کوخوش رکھتےیاد صاحب کمال کے لطیفہ گو تھے،اوروں کےساتھ ساتھ کبھی کبھی خودکوبھی نشانہ بنالیاکرتے تھے لیکن اس کےساتھ ہی سماجی زندگی میں انتہائی نستعلیق- اپنے گھر پراکثر و بیشترمحافل ومجالس کااہتمام کیا کرتے تھے جن میں اپنے خاص خاص دوستوں کو مدعو کرتے، مجھے بھی ایسی کئی محافل میں شرکت کا موقع ملاوہ عام طور پر اتوار کےروز ناشتے پر دوستوں کوجمع کرتےتھے- اُن کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا جس میں شاعروں اورادیبوں کے ساتھ شہر کے چیدہ چیدہ دانشور اور علماء بھی شامل تھے-یادصاحب کی سجائی ہوئی ان محفلوں میں مجھے جن بڑے لوگوں سے ملنے کا شرف حاصل ہوا اُن میں مولاناعلی نقی (نقن )صاحب اورعلامہ طالب جوہری مرحوم جیسے جید علماء سے ملاقات اور اُن سے گفتگو کواپنا شرف سمجھتا ہوں-اس کہانی کو سمیٹتے ہوئے بس اتنا کہوں گا کہ گورنمنٹ کالج میں میرا قیام ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ثابت ہوا اور ایک ایساسنگ میل بھی جس نے میری پیشہ ورانہ زندگی کے مستقبل کی کامیابیوں کی پیش بندی کردی-اپنی اس کہانی کو مشکور حسین یاد کی اس غزل کےساتھ اختتام تک پہنچاتے ہیں:

عمر گزری سفر کے پہلو میں

خوب سے خوب تر کے پہلو میں

سانس لیتا ہے ذوق لا محدود

خواہش بام و در کے پہلو میں

شر کو کیا سمجھے یہ غبی مخلوق

شر کہاں ہے بشر کے پہلو میں

خوش نہ ہو آنسوؤں کی بارش پر

برق ہے چشم تر کے پہلو میں

اب ہمیں کیا کوئی سنبھالے گا

ہم ہیں سیلاب زر کے پہلو میں

فرش پر اس نے لی جو انگڑائی

عرش آیا اتر کے پہلو میں

عافیت سے بھی یادؔ خود کو بچاؤ

عافیت ہے خطر کے پہلو میں

————————————