کہانی در کہانی

یہ تحریر 515 مرتبہ دیکھی گئی

چھٹی کہانی :

پاکستان ٹائمز کا ننھا،انور علی اور ڈاکٹر اعجاز انور ::
فیض کا شعر ہے؀۔

کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر

خوشبوکاپیرہن بدلنا کیا ہوتاہے- یہ بات آج تک مجھےسمجھ نہیں آئی ہاں البتہ میں نےتصویروں کو گاتےضرور سنا ہے-وہ جو کہا جاتا ہےتصویر بولتی ہےتو کچھ غلط نہ ہوگاکہ غالب کہتے ہیں؀

شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

یہ ذکر میں نے اس لئے چھیڑا ہے کہ کل “ہرسکھ میں میری ملاقات اس دور کے فنون لطیفہ کے ایک بڑے نام ڈاکٹراعجاز انور سےہوئی اورہم نے دو تین گھنٹےساتھ گزارے جو مجھےہمیشہ یاد رہیں گے اعجازانورجو کسی تعارف کے محتاج نہیں ، وہ نیشنل کالج آف آرٹس کے سابق پروفیسر اور کالج آرٹ گیلری کے ڈائرکٹر ہیں،فن مصوری کی ہمہ وقت خدمت میں مگن رہتےہیں اور ہر اتوار کو اپنی گیلری میں صبح سےشام تک نو آموز فنکاروں کی رہ نمائی اور تربیت کافریضہ انجام دیتے ہیں-اہم بات یہ کہ وہ نہ صرف خود ایک بڑے فنکارہیں بلکہ ایک بہت بڑے فنکار کے صاحبزادے ہیں-پاکستان ٹائمر کے کارٹونسٹ انور علی اوراُن کے مشہور زمانہ کارٹون “ننھا” کو کون نہیں جانتا لیکن شاید یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہو کہ انورعلی اعجاز انور کے والد تھے اور ننھا خود اعجاز انور ہیں-آئیےاب اس کہانی کا پس منظر بیان کرتے ہیں- یہ۱۹۲۲کےاوائل کا ذکر ہےلدھیانہ کےایک معزز خاندان میں لڑکا پیدا ہوا نام اُس کا انور علی رکھا گیاکسی کو کیا معلوم کہ نو مولود مستقبل میں ادب و فن کی دنیا میں روشن ستارہ بن کر چمکے گااور آگے چل کر یہ بات واقعی درست ثابت ہوئی-انور علی کو ابتداء ہی سے کارٹون بنانے میں دلچسپی تھی چنانچہ اُنہوں نے مختلف اخبارات میں اپنی ان خداداد صلاحیتوں کا خوب لوہا منوایا قیام پاکستان کے بعدجب لاہورسے “پاکستان ٹائمز“جاری ہوا تو وہ اس سے منسلک ہوگئے اورریٹائرمنٹ تک اسی انگریزی اخبار سے منسلک رہےدرمیان میں کچھ عرصہ “سول اینڈ ملٹری گزٹ”کے ساتھ بھی کام کیاابتداء میں اپنے کارٹون کے لئے اُنہوں نے چودھری کا کردار تخلیق کیا تھا مگر ۱۹۵۲میں مشہور زمانہ ننھاکا کردار اپنے کارٹونوں میں سامنے لائے جو صرف ایک کردار ہی نہیں بلکہ جیتی جاگتی شخصیت اورموجودہ دور کے فنون لطیفہ کےآئیکون اعجاز انور ہیں-انور علی ایک سچے کھرے، ترقی پسندسوچ کےحامل فنکار تھے- وہ نہ صرف فنون لطیفہ کا ایک اہم نام ہیں بلکہ پنجابی زبان کے ایک معروف ومنفرد لکھاری بھی تھے-

انور علی کے پنجابی افسانوں کامجموعہ “کالیاں اٹاں کالےروڑ”اور ناولٹ “نوری پنجابی فکشن میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اُن کی آپ بیتی “گواچیاں گلاں”صرف انور علی کی خود نوشت ہی نہیں ،اُس دور کی مکمل سیاسی و سماجی تاریخ ہےجسے “سویرا” کے مدیر ریاض احمد نے اُردو میں ترجمہ کرکے “بُھولی باتیں” کے نام سے اپنےموقرجریدہ میں شائع کیا-میری خوش بختی ہے کہ میں نے نےاُن کو پاکستان ٹائمزمیں چلتے پھرتے ہنستے کھلکھلاتے اور گفتگو کرتے دیکھا بلکہ مجھےاُن سے ہم کلامی کا شرف بھی حاصل رہا ہے اس کا قصہ یوں ہے کہ دیال سنگھ کالج کے زمانے میں ، میں سٹوڈنٹس یونین کا سیکریٹری چنا گیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اُس دور کےمشہوراخبار “مشرق” میں تعلیمی صفحے پر”یونیورسٹی راؤنڈاپ“کے عنوان سے ہفتہ وار کالم لکھا کرتا تھا،اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان لاہور کے”یونیورسٹی میگزین” میں بھی شرکت کیا کرتا تھا، محمد ادریس جو اُس دور کے معروف صحافی اور دانشور تھے اس پروگرام کے کمپئیر تھے-میں اکثر ادریس صاحب کو ملنے کے لئےپاکستان ٹائمز جایا کرتا -محمد ادریس انتہائی نفیس انسان اور باغ و بہارشخصیت کےمالک تھے،مجھ سے بہت اچھی طرح ملتے اور چائے بھی پلاتے تھے،اُن کے دفتر ہی میں انورعلی صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی جس کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا- ہاں ایک اور بات، انور علی کے ایک حقیقی بھائی ارشاد علی صاحب گورنمنٹ کالج میں انگریزی کےمعروف استاد تھےجو طلبہ میں بہت مقبول تھے- جب گورنمنٹ کالج لاہورمیں میرا تقرر بطور لیکچرر ہوا تو پروفیسر ارشاد پہلے سے وہاں موجود تھے،مجھے اُن کے کمرے کے قریب ہی کمرہ ملا الاٹ ہوا اور اس طرح پروفیسر ارشاد سے بھی ربط وضبط بڑھا، کافی عرصےکے بعدابھی پچھلے دنوں اعجاز انورسے اُن کا نمبر ملا تواُن سے فون پر طویل گفتگو ہوئی اور اسی کی دہائی کے گورنمنٹ کالج کےشب وروز کا پورا منظرنامہ آنکھوں کے سامنے آ گیا-یہ اضافی قصہ تمام ہوا، کہانی کا آغاز پھر وہاں سے کرتے ہیں جہاں چھوڑی تھی-

ڈاکٹر اعجاز انورکی مصوری کا رجحان قدیم لاہورکی جانب رہا ہےاورلاہور کےچوبارےہمیشہ اُن کی مصوری کا خاص موضوع رہےہیں وہ عمومی طور پر واٹر کلر کااستعمال کرتے ہیں اور آثار قدیمہ کو جیتی جاگتی زندگی کا روپ دے کر اپنی تصویروں میں لا کھڑا کرتے ہیں-اعجاز انور کی فنون لطیفہ کے لئے نمایاں خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے اُنہیں تمغۂ حسن کارکردگی عطا کیاہے دنیا کے مختلف ممالک میں اُن کے منفرد فنی کام کی نمائش ہو چکی ہے


لاہور، راولپنڈی،دہلی، روم ،انقرہ ، استنبول ، روم اور لندن جیسے بڑے مراکز میں اعجاز انورکی اعلیٰ مصوری کو شرف قبولیت مل چکاہے-

اعجاز انور لاہور کنزرویشن سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے لاہورکے قدیم ورثے کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں،وہ نئی نسل کواس جانب نہ صرف متوجہ کرتے رہتے ہیں بلکہ اپنےسٹوڈیو میں اُن کی عملی تربیت کافریضہ بھی انجام دینے میں مگن رہتے ہیں-
الللہ تعالئ اعجاز انور کو تادیرسلامت رکھے تاکہ یہ اسی طرح نئی نسل کی تربیت کے عمل کوہمہ وقت جاری رکھ سکیں-

تم سلامت رہو ہزار برس

ہربرس کےہوں دن پچاس ہزار