کلام غالب ، کچھ مسائل

یہ تحریر 2400 مرتبہ دیکھی گئی

(1)

(کمال احمد صدیقی کی یاد میں)

                غالب کو اپنی زندگی ہی میں غیر معمولی شہرت اور وقعت حاصل ہوئی۔ ابو محمد سحر نے بہت صحیح لکھا ہے کہ نہ صرف یہ کہ غالب کی زندگی میں ان کی شہرت بہت تھی، بلکہ یہ بھی کہ ان کی اسی شہرت اور وقعت نے حالی کو ’یادگار غالب‘ لکھنے کی تحریک دی۔لیکن ان کے بارے میں یہ افسانہ اب تک مشہور ہے کہ زمانے نے غالب کی قدرنہ کی۔اگر ان کی تصنیفات کی فہرست تیار کی جائے جو ان کے حین حیات میں شائع ہوئیں اوراس فہرت میں یہ بھی درج کیا جائے کہ کون کون سی تصنیفات کے ایک سے زیادہ ایڈیشن شائع ہوئے تو بات اور بھی صاف ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مقبول ترین شاعر تھے۔ صرف اردو دیوان کو لیجئے تو اس کی اشاعت غالب کی زندگی میں حسب ذیل تاریخوں میں ہوئی:

                ۱۸۴۱

                ۱۸۴۷

                ۱۸۶۱

                ۱۸۶۲

                ۱۸۶۳

                فارسی کا کلیات بھی بڑے اہتمام سے نولکشور نے چھاپا۔ خطوط اردو کی بھی ایک جلد ان کی زندگی میں آگئی۔فارسی کی بہت ساری نثران کی زندگی میں چھپی۔اس کے برخلاف، مومن کا دیوان بقول نثار احمد فاروقی۱۸۴۶ میں نواب شیفتہ نے چھپوایا تھااور بقول عرش گیاوی صرف دیوان فارسی حکیم احسن اللہ خان نے ۱۸۵۷کے پہلے شائع کیا تھا۔ یہ دیوان عرش گیاوی ہی کے زمانے (۱۹۲۸) میں ناپید تھا۔نثار احمد فاروقی نے۱۸۴۶ کے دیوان کو کلیات کہا ہے اور کہا ہے اس میں مومن ’کا بیشتر منظوم کلام ‘ شامل تھا۔ چونکہ یہ دیوان یا کلیا ت اب تک کسی نے دیکھا نہیں ہے اس لئے عرش گیاوی کی بات پر تکیہ کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس دیوان میں صرف فارسی کلام رہا ہو گا۔ ان کا اردودیوان بقول وقار خلیل پہلی بار۱۲۸۲ (مطابق ۱۸۶۵/۱۸۶۶میں منطبع ہوا۔عرش گیاوی نے عبد الرحمٰن آہی کے مرتب کردہ دیوان کا ذکر کیاہے۔ انھوں نے اس کی تاریخ اشاعت نہیں لکھی لیکن یہ کہا کہ اس میں اغلاط بہت ہیں۔نثار احمد فاروقی کے بقول یہ دیوان بھی نواب شیفتہ کے اعتنا سے شائع ہوا تھا۔ مومن بہر حال ۱۸۵۲میں اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔

                ذوق کا حال اس سے بھی ابتر رہا۔کلیات ذوق کی اول اشاعت (امراﺅ مرزا انور اور حافظ ویران کی کوششوں سے) فراق کی موت کے نو سال بعد۱۸۶۳میں ہوئی۔مگر بقو ل تنویر احمد علوی اس میں بہت سی کمیاں بھی تھیں۔محمدحسین آزاد بھی اس سے بہت ناخوش تھے، لیکن انھوں نے جو دیوان ذوق مرتب کیا (اس کے زمانہ ترتیب میں آزاد کی دیوانگی کے بھی کچھ برس شامل ہیں)، وہ خود ہی بہت ناقص ہے۔

                ان تفصیلات کی موجودگی میں یہ خیال کرنا چاہیئے کہ غالب کی قدر و عزت ان کے زمانے میں بہت ہوئی۔انھوں نے بندہ علی خان عرف مرزا میر کو۱۸۶۴ میں لکھا تھا کہ میں ’بہت سی عزت اور تھوڑی سی دولت‘ چاہتا ہوں۔جتنی عزت ان کو ملی اس کے پیش نظر یہ بیان محض ہل من مزید کی ذیل میں آنا چاہیئے کہ وہ اور بھی عزت چاہتے تھے لیکن وہ ایسی عزت تھی جو نا ممکن الحصول تھی۔ مثلاً ملکہ برطانیہ کے یہاں سے خطاب ملک الشعرائی ملنا،لوہارو خاندان سے ان کے مرتبے کے موافق آﺅ بھگت اور داماد کی حیثیت سے مالی تعاون ملنا، مہاراجہ بیکانیر کے یہاں سے کوئی عہدہ اور تنخواہ،یا محض انعام ملنا، دہلی کالج میںانگریز کا نوکر ہونے کے باوجود انگریز سے توقع رکھنا کہ وہ ان کے استقبال کو آئے۔ انھوں نے نوکری فوراً ہی چھوڑ دی، بلکہ قبول ہی نہ کی، یہ کہہ کر کہ میں نے نوکری اپنی افزائی عزت کے لئے قبول کی تھی نہ کہ توقیر موجودہ میں تخفیف کے لئے۔لوہارو خاندان سے ان کے مراسم کبھی بہت خوشگوار نہ رہے۔ ۲۳ اگست ۱۸۵۸ کو انھوں نے علائی کو صاف صاف لکھا کہ ’میری بی بی اور بچوں کو کہ یہ تمھاری قوم کے ہیں مجھ سے لے لوکہ میں اب اس بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے بشرط لوہارو جانے کے اس خواہش کو قبول کیا۔‘ لیکن ظاہر ہے غالب کے اہل و عیال کوان کی ’قوم‘ والوں نے غالب ہی کے پاس رکھنا بہتر سمجھا اور نہ ہی ان کی کچھ مالی اعانت کی۔

                 ان شکایتوں یا آرزوﺅں سے قطع نظر کیجئے تو غالب کو توقیر بہت ملی۔بڑے بڑے انگریزوں سے ان کی رسم و راہ تھی۔ ریزیڈنٹ ولیم فریزر کو وہ دوستوں میں گنتے تھے۔ کم سے کم دو معزز انگریز انھیںاپنا استاد گنتے تھے، اوردہلی کے تمام ہندوستانی زعما اور بیرون دہلی کے کئی معزز خاندانوں کے علاوہ ان کے انگریز ملاقاتی بھی بہت سے تھے۔ ذوق اور مومن کے یہاںایسی کوئی بات نہ تھی۔

                یہ بات ضرور ہے کہ غالب کو جس طرح’بہت سی عزت‘ کی تمنا تھی اسی طرح انھیں یہ شکوہ بھی تھا کہ میری قدر وہ نہ ہوئی جس کا میں مستحق تھا۔ یہ بات انھوں نے عمر کے آخری برسوں میں کئی بار لکھی:

                (۱) ’اپنے ایمان کی قسم میں نے اپنی نظم و نثر کی داد بہ اندازہ بایست نہیں پائی۔آپ ہی کہااورآپ ہی سمجھا‘(بنام علائی، مورخہ ۱۳ فروری۱۸۶۵)۔

                (۲) ’ساٹھ برس بکا نہ مدح کا صلہ ملا نہ غزل کی داد‘(بنام قدر بلگرامی، تاریخ ندارد، لیکن ’غالب کے خطوط‘ مرتبہ و مدونہ خلیق انجم میں قدر کے نام یہ غالب کا آخری خط ہے)۔

                (۳) ’ہر شخص نے بہ قدر حال ایک ایک قدر داں پایا۔ غالب سوختہ اختر کو ہنر کی داد بھی نہ ملی‘(بنام حبیب اللہ ذکا، تاریخ ندارد، لیکن ’غالب کے خطوط‘ مرتبہ و مدون خلیق انجم میں ذکا کے نام یہ غالب کا آخری خط ہے۔ اس سے پچھلے خط پر ۲۷ جنوری ۱۸۶۸ کی تاریخ پڑی ہوئی ہے)۔

                یہاں پہلی بات تو یہ غور کرنے کی ہے کہ یہ تینوں خط غالب کے آخری زمانے کے ہیں۔ علائی کے نام خط ۵۶۸۱ کا ہے جب غالب بہت کمزور اور بخیال خود بوڑھے ہو چکے تھے اور اس بات سے بظاہر مایوس تھے کہ اب انھیں کچھ اور اعزاز و اکرام مل سکیں گے۔مرزا عبد الرحیم بیگ کے نام ایک طویل خط میں(اس پر تاریخ نہیں ہے لیکن ظاہر ہے وہ آخری زمانے کا ہے، کیونکہ سارے خط میں’قاطع برہان‘ پر مرزا عبد الرحیم بیگ کے اعتراضات کاجواب ہے) اس خط میں غالب نے صاف لکھا ہے کہ اب ’اصلاح حال اور حصول مطلب سے دل مایوس ہے‘)۔             علائی کے نام اس زمانے کے خطوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوںخاندان لوہارو سے ان کی کچھ نئی نا چاقیاں بھی تھیں۔بہر حال، ان باتوںکے علاوہ، یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ غالب کا یہ جملہ کہ میںنے ’آپ ہی کہا اور آپ ہی سمجھا‘ ، در اصل ایک مضمون شعری ہے۔ یہ مضمون سبک ہندی کے شعرا نے ایجاد کیا اور اس کے کئی پہلو ہیں۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میری بات کوئی سمجھتا نہیں۔ فیضی جو سبک ہندی کے اولین شعرا میں ہے، اس نے یہ مضمون بار بار باندھا ہے۔ مثال کے طور پر تین شعر ملاحظہ ہوں

                عجب تر از دل فیضی نہ دیدہ ایم طلسم

                کہ ہم گہر بود و ہم محیط و ہم غواص

                ز من مپرس شمار رموز دل فیضی

                معلماں نہ شمارندموج دریا را

                یک نقطہ ز حرف عشق فیضی

                در دائرہ بیاں نہ گنجد

                پہلے شعر کا مضمون بالکل غالب کے اس قول کی تفصیل ہے کہ میں نے’ آپ ہی کہا اورآپ ہی سمجھا‘۔ دوسرا شعر بھی اسی مضمون کا ایک اور پہلو ہے کہ معلمان و ملایان مکتبی ہماری بات نہیں سمجھ سکتے۔ صائب بھی سبک ہندی کے ممتاز شعرا میں ہے۔ اس نے اسی مضمون کو ’شعر مرا بہ مدرسہ کہ برد؟ ‘ کا فقرہ کہہ کر ادا کیا۔لہٰذا غالب کا شکوہ ناقدری روزگا ر و فقدان صلہ کمال شعر بھی اسی مضمون کے تحت رکھا جانا چاہیئے۔

                دوسرے مسئلے کے طور پریہاں یہ بات بھی کہہ دینا غیر مناسب نہ ہو گا کہ غالب کے کچھ مشہور ترین فارسی اشعارکو بھی یاروں نے اسی ضمن میں رکھا ہے کہ غالب کو شکوہ تھا کہ میرے زمانے میں میری قدر نہیں ہوئی۔ اشعار سن لیجئے

                تا ز دیوانم کہ سر مست سخن خواہد شدن

                ایں مے از قحط خریدارے کہن خواہد شدن

                کوکبم را در عدم اوج قبولی بودہ است

                شہرت شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن

                 پہلی بات تو یہ کہ اکثر ماہرین غالب نے مطلع میں ’تا‘ اور ’کہ‘ کو نہیں سمجھا ہے۔ ’تا‘ یہاں در اصل ایک روز مرہ ہے، جیسے ہم لوگ کہتے ہیں ،’دیکھیں اب کیا ہوتا ہے‘ یا ’ بھلا اب کیا ہوگا؟


‘اسی طرح ’تا‘ کے معنی ہیں، ’بھلا کب‘ یا ’ بھلا دیکھیں تو سہی‘، جیسا کہ حافظ کے یہاں ہے

                تا نہال دوستی کے بر دہد

                حالیا رفتیم و نخلے کاشتیم

اب رہا ’کہ‘ کا معاملہ، تو یہ کاف کدامیہ ہے،یعنی’کون‘۔ لہٰذا شعر کے معنی ہوئے کہ بھلا دیکھیں میرے اشعار سے کون سر مست ہوتا ہے؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ خریداروں کے قحط کے باعث یہ شراب پرانی ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ مضمون شکوے کا نہیں ، یہ تعلی کا شعر ہے۔ دوسرے شعر سے یہ بات اور صاف ہو جاتی ہے کہ میرے ستارہ تقدیر کو ملک عدم ہی میں اوج قبول مل چکا ہے۔ لہٰذا جب میں عدم میں ہوں گاتو میرے شعر کی شہرت ہو گی۔

  غز ل کا ایک دو شعر پڑھ کر چھوڑ دینے والے اصحاب نے اس غزل کا مقطع نہیں پڑھا

                در تہ ہرحرف غالب چیدہ ام مےخانہ اے

                تا ز دیوانم کہ سر مست سخن خواہد شدن

یعنی غالب، میں نے ہر لفظ کی تہ میں ایک میخانہ سجا رکھا ہے۔ بھلا دیکھیں تو کون میرے دیوان میں بھر ی ہوئی شراب سے سر مست ہوتا ہے؟ یہی شعر غالب نے اپنے فارسی دیوان کی تقریظ کے آخر میں درج کیا ہے ۔لہٰذا ان اشعار میں تعلی اور ایک طرح کی چنوتی ہے ، شکوہ روزگار نہیں۔اگلی بات یہ کہ یہ غزل ایک طرح سے پیشین گوئی کی غزل ہے، یعنی اس میں غالب نے کہا ہے کہ اگلے زمانے میں شعر کی بری گت ہو گی اور مذاق بے حد پست ہوں گے۔ تعلیکے پانچ شعروںکے بعد غالب کہتے ہیں

                ہی چہ می گویم اگر اینست وضع روز گار

                دفتر اشعار باب سوختن خواہد شدن

پھر یہاں تک کہہ دیا ہے

                چشم کور آئینہ دعویٰ بکف خواہد گرفت

                دست شل مشاطہ زلف سخن خواہد شدن

آخری شعر میں کہتے ہیں کہ قرب قیامت کی آخری نشانی نمودار ہو گی کہ دنیا سے کفر وجود کا نام و نشان مٹ جائے گا اور ہر طرف توحید کا دور دورہ ہوگا

                گرد پندار وجود از رہگذر خواہد نشست

                بحر تو حید عیانے موجزن خواہد شدن

لہٰذا اس غزل کے مطلعے کی تعبیر یہ نہیں ہو سکتی کہ اس میں محزونی ہے اور شکوہ روزگار ہے۔غالب کی قدر ان کے زمانے میں نہیں ہوئی، یہ ایک مفروضہ ہے جس سے ہم لوگ اب تک آزاد نہیں ہو سکے ہیں۔

                ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ غالب کے قریبی لوگوں نے، اور بعد کے لوگوں نے بھی مزید زور شور سے یہ بات کہی کہ غالب نے آخری زمانے میں میر کا انداز اختیار کیا، کیونکہ انھیں احساس تھا کہ میرا گذشتہ رنگ مقبول نہیں ہو سکتا۔ہماری ادبی تاریخ میں اکثر مشہور باتوں کی طرح یہ بات بھی بالکل جھوٹی ہے۔ اول تو خودغالب نے کہیں نہیں کہا یا لکھا کہ اب میں شیوہ میر اختیار کرتا ہوں۔ انھوں نے اپنے خطوط میں اپنے شعر کے بارے میں بہت سی باتیں کہی ہیں اور بعض باتوں پر بہت زور بھی دیاہے۔لیکن ان میں کہیں سے یہ متبادر نہیں ہوتا کہ میں نے اب شیوہ میر اختیار کر لیا ہے۔دوسری بات یہ کہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ غالب نے پچیس سا ل کی عمر تک جو کہا اس کا بڑا حصہ انھیں غزلوں پر مشتمل ہے جن کی بنا پر ہم میں سے اکثر لوگ غالب کو اردو کا سب سے بڑا شاعر ماننے پر مصر ہیں۔ اس نکتے کی طرف سب سے پہلے مالک رام مرحوم نے اشارہ کیا تھا۔ غالب کا یہ بیان سراسر غلط ہے کہ انھوں پچیس سال کی عمر تک کہے ہوئے دیوان کو یکسر چاک کر دیا۔ عبدالر زاق شاکر کے نام ان کے خط کا یہ فقرہ مشہور زمانہ ہے اور تمام مشہور زمانہ باتوں کی طرح وہ بھی بالکل جھوٹ ہے۔ غالب نے لکھا:’پندرہ برس کی عمر سے پچیس برس کی عمر تک مضامین خیالی لکھا کیا۔دس برس میں بڑا دیوان جمع ہو گیا۔ آخرجب تمیز آئی تو اس دیوان کو دور کیا۔ اوراق یک قلم چاک کئے۔دس پندرہ شعر واسطے نمونے کے دیوان حال میں رہنے دیئے۔ ‘                                                                                 

                دس پندرہ شعر کہاں، غالب کا تقریباًسارا دیوان پچیس برس کی عمرتک تصنیف ہو چکا تھا۔متداول دیوان کا بہت بڑا حصہ غیر متداول دیوان میں موجود ہے غالب نے فارسی میں زیادہ لکھا، اردو میں کم۔پچیس سے پچاس برس کی عمر تک انھوں نے کم و بیش صرف فارسی لکھی۔ اس کے بعد جب انھوں نے اردو گوئی دوبارہ اختیار کی تو بھی ان کی رفتار بہت کم رہی۔ انھوں نے کوئی ۷۴۸۱ سے اردو میں بھی خط لکھنے شروع کئے۔ بہت جلد ہی اردو خطوط کی رفتار اور تعداد بہت ہو گئی۔ان مراسلات کو دیکھیں تو غالب بار بار اس بات کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ مدتوں سے ہندی میں کچھ نہیں کہا، یا اکا دکا غزل ہوئی بھی تو و ہ یاد نہ رہ گئی۔غالب نے ہمیشہ خود کو اولاًفارسی کا شاعر سمجھا۔۴ جنوری۱۸۵۹ کو انھوں نے شیو نرائن آرام کو تقریباً بگڑ کر لکھا، ’میرا یہ منصب ہے کہ مجھ پر اردو کی فرمائش ہو؟‘وہ قطعہ بھی دیکھ لیجئے جس میں انھوں نے مجموعہ اردو کو ’بے رنگ‘ ، یعنی محض ’خاکہ‘ یا انگریزی اصطلاح میں Drawingکہا تھا اور فارسی کو ’نقش ہاے رنگ رنگ ‘ سے معمور کہا تھا۔چلئے وہ شعر بھی سن ہی لیجئے

                                فارسی بیں تا بہ بینی نقش ہاے رنگ رنگ

                                بگذر از مجموعہ اردو کہ بیرنگ من است

       اتوں کے پیش نظر،یہ کہاں ممکن تھا کہ وہ میر کے ہزارمعتقد ہونے کے باوجود میر کی طرح کے شعر کہنے کی کوشش کرتے؟ غالب اعلیٰ درجے کے خیال بند شاعر تھے۔ انھیں میر کی طرح خیال کو مجسم کرنے یا دنیا اور دنیا والوں کی باتوں کو نظم کرنے کا شوق نہ ہو سکتا تھا۔ انھوں نے میر کی زمین اور بحر میںپانچ شعروں کی ایک غزل جو عالم نوجوانی میں لکھی تھی اسی کو پڑھ لیجئے، سب حا ل عیاں ہو جائے گا۔ مطلع ہے

                وحشی بن صیاد نے ہم رم خوردوں کو کیا رام کیا

                رشتہ چاک جیب دریدہ صرف قماش دام کیا

اس غزل میں نہ میر بول رہے ہیں نہ بیدل، صرف ایک نوجوان کٹر خیال بند بول رہا ہے اور اس دعوے کے ساتھ کہ میں استاد کی مشہور غزل پر غزل کہوں لیکن اس کا رنگ بالکل نہ برتوں گا۔ لیکن نوجوان غالب پانچ ہی شعروں کے بعد پسپا ہو گیا اور استاد نے پندرہ شعر کی غزل پر بس نہ کیا، بلکہ دیوان پنجم میں نو شعر کی ایک غزل اور ٹھونک دی۔

                لوگ کہتے ہیں ’ابن مریم ہوا کرے کوئی‘ اور اس انداز کی غزلیں میر کے رنگ میں ہیں۔ بھلا اس غزل کا مطلع دیکھئے

                ابن مریم ہوا کرے کوئی

                میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

بےشک اس شعر کی معصوم جھلاہٹ اور ضد بہت خوب ہیں۔ لیکن میر جس برہمی اور اور جس تلخی سے اسی مضمون کو ادا کرتے ہیں وہ کسی اور عالم سے ہے

خضر و مسیح سب کو جیتے ہی موت آئی

اور اس مرض کا کوئی اب چارہ گر کہاں ہے

میر کے شعر میں دلی کے شہدوں اور رندوں کا لہجہ ہے،اس طرح کا دنیا وی لہجہ اختیار کرناخیال بندوں کا کام نہیں۔ ’کام کیا‘ کی زمین و بحر میں غالب کا مطلع میں نے نقل کیا۔ اب اس غزل سے ایک شعر میر کا دیکھئے۔ میں نے مطلع نظر انداز کر دیا ہے کہ وہ کثرت سے نقل کیا جا چکا ہے

کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے

استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا

یہ شعر ،ظاہر ہے کہ دیوان اول کا ہے۔اب دیوان دوم کا ایک شعر سنئے

                شیوہ اپنا بے پروائی نومیدی سے ٹھہرا ہے

                کچھ بھی وہ مغرور دبے تو منت ہم سو بار کریں

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔