کشتگانِ کووڈ کے نام

یہ تحریر 869 مرتبہ دیکھی گئی

ہری بھری شاخوں سے ٹوٹے کیسے کیسے پھول
ایسی آندھی آئی جس نے بہت اڑائی دھول
پیر و جواں سب مٹی کی آغوش میں جا کر سوئے
کیسے کیسے موتی ہم نے گنجِ ہنر سے کھوئے
سر پر گٹھری دکھ کی رکھی بوجھ غموں کے ڈھوئے
صبح ہوئی تو سوگ میں ڈوبے رات آئی تو روئے
نم آنکھوں میں گھوم رہی ہیں ان سب کی تصویریں
وقت سے پہلے موت نے جن کو پہنا دیں زنجیریں
کہاں سے لے کر آؤں اب میں اپنے چاند ستارے
کوئی فلک پر جائے جاکر ان کے نام پکارے
کیسے ان کے حرف تھے روشن کیا اجلی تحریریں
اب نہ اندھیروں میں دیکھیں گے ہم ان کی تنویریں
عمر گزر جائے گی ان کا ماتم کرتے کرتے
ایک زمانہ لگ جائے گا زخم کے بھرتے بھرتے


شمیم حنفی، پروفیسر رضوان حسین، ظفر احمد صدیقی، رضا حیدر، عنبر بہرائچی،خواجہ انور الدین، مشرف عالم ذوقی، شوکت حیات، مولا بخش، ترنم ریاض، وقار رضوی، محمد مسعود، محمد علی (صحافی) اور دوسروں کی یاد میں۔