نیر مسعود ہمہ رنگ ہمہ داں

یہ تحریر 634 مرتبہ دیکھی گئی

حصہ دوم
0
نیرمسعود کو جس نے بھی دیکھا اور جو بھی ان سے ملا، اس نے اوّلین تاثر یہی قائم کیا کہ اس شخص نے اپنی زندگی میں لکھنے پڑھنے کے سوا کسی اور چیز سے کوئی تعلق نہ رکھا ہوگا۔ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ پکی عمر میں کم گو اورکم آمیز نظرآنے والا یہ شخص بچپن میں لوگوں کی ناک میں دم کردینے والا ایک بہت شریر لڑکا تھا۔ اردو کے ایک بڑے جدید نقاد نے اپنی ایک تنقیدی کتاب کے دیباچے میں اپنے شخصی فضائل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”میں نے بچپن میں نہ کبھی کبڈّی کھیلی، نہ گلّی ڈنڈا، نہ گولیاں کھیلیں، نہ پتنگ اُڑایا نہ درختوں پر چڑھا نہ کود پھاند کی۔“ لیکن نیرمسعود نے یہ سب کیا۔ لکھنے پڑھنے کے شوق کے ساتھ ساتھ بچپن میں ان کی شرارتیں اپنے عروج پر تھیں۔ کبھی کبھی جب وہ بچوں کو بہت زیادہ ستاتے تو اُن کی ماں جل کر کہتیں: ”مواشمر ہے۔“ گھر سے جب نیرمسعود اسکول پہنچے تو وہاں اچھے لڑکوں کے بجائے خراب لڑکوں کی صحبت رہی۔ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں خوب گالیاں بکی جاتیں۔ انہیں لڑکوں کے ساتھ اسکول سے بھاگ کر پرانے لکھنؤ کی سڑکوں پر آوارہ گردی کی جاتی۔ طوائفوں کا علاقہ چوک بھی انہوں نے خوب چھانا اور طوائفوں کو دیکھنے کا شوق ہوا تو ایک ہم جماعت کے ساتھ طوائف کے کوٹھے پر جاکر اسے بھی دیکھ آئے۔
کم سنی میں بچوں کو جو شوق ہوا کرتے ہیں، نیرمسعود نے وہ سب پورے کےے۔ پتنگ اُڑائی، لٹّونچایا، کنچے کھیلے، دیواروں پر چڑھے، منڈیروں پر دوڑے، درختوں کی شاخوں پر اچکے پھاندے، کیرم، لوڈو، کنّاگوٹی، اکلاٹکلا، چھلی چھلّیاں کھیلنے کے ساتھ کرکٹ، بیڈمنٹن، ہاکی اور گیند تڑی کھیلی اور تاش، چائنیزچیکر اور شطرنج کھیل کر ذہن کی بروقت جولانی کو بھی خوب آزمایا اور راہ چلتے لوگوں کو بھی خوب ستایا۔ اکثر وہ سائیکل کے ٹائر کا تار نکال کر اسے سڑک کے دوسری طرف ڈال کر اس طرح کھینچتے تھے کہ لوگ سانپ سمجھ کر ڈر جاتے تھے۔ ہولی میں برانہ مانو ہولی ہے کہہ کر لوگوں پر اڑن چھورنگ ڈال کر انہیں اس وقت تک باتوں میں الجھائے رکھتے جب تک وہ رنگ اڑ نہ جاتا۔ جاڑے کی سرد راتوں میں اوورکوٹ یا چسٹر پہن کر باہر نکلتے اور بہت بلند آواز میں فارسی کے شعر پڑھتے۔ ویران سڑک پر اکّا دکّا راہ گیر انہیں حیرت اور خوف سے دیکھتے ہوئے آگے نکل جاتے۔
بچپن کے ان شوقوں نے، جب نیرمسعود جوان ہوئے، اپنا رنگ بدل لیا۔ اب اُن کی طبیعت موسیقی، مصوری اور خطاطی وغیرہ کی طرف مائل ہوئی اور انہیں پھولوں، پرندوں اور جانوروں سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ میں نے تو کبھی اُن کو گنگناتے دیکھا نہیں لیکن اُن کے چھوٹے بھائی اظہرمسعود بتاتے ہںر کہ وہ پکّے سُر میں گا بھی لیتے تھے۔ اپنا یہ شوق پورا کرنے کے لےے وہ گھر کی چھت پر اپنے بھائیوں کے ساتھ گانے کی محفلیں سجاتے۔ ان محفلوں میں اُن کے بہنوئی ڈاکٹر مسیح الزماں بھی شریک رہتے۔ راگ الاپنے والوں میں کوئی بھی خود کو تان سین سے کم نہ سمجھتا۔ راگوں اور سروں کی یہ آوازیں مسعودحسن کے کانوں تک بھی پہنچتیں۔ جب گانوں کی روز روز کی محفلوں سے وہ عاجز آگئے تو ایک دن انہوں نے زینے پر تالا لگواکر چابی اپنے پاس رکھ لی۔
راگ اور سُر کی نیرمسعود کو اچھی پہچان تھی۔ وہ آلاتی اور صوتی دونوں طرح کی موسیقی سے اچھی طرح واقف تھے۔ اودھ کے موسیقاروں کے علاوہ انہیں ہندوستان کے سارے بڑے موسیقاروں اور اُن کے گھرانوں کا علم تھا۔ موسیقی کا یہ علم اودھ کی تہذیب و ثقافت سے متعلق اُن کی تحریروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
جو لوگ نیرمسعود کے ملاقاتی کمرے میں بیٹھے ہیں انہوں نے وہاں خطاطی اور مصوری کے نمونے ضرور دیکھے ہوں گے۔ یہ نمونے نیرمسعود اپنے ہی بنائے ہوئے فریموں میں سجاکر کمرے کے اندر مناسب جگہوں پر رکھ دیتے تھے۔ ان کے پاس مصوری کا عمدہ اور مکمل سامان موجود تھا۔ عمدہ قسم کے برش، اعلیٰ قسم کے رنگ، موٹی اور پتلی پینسلیں، ایک بہت دبیز کارڈ بورڈ اورکھردرا اور چکنا کاغذ۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ کون سے رنگوں کی آمیزش سے کون سا نیا رنگ بنایا جاتا ہے نیز کس رنگ کے ساتھ اور کس رنگ پر کون سا رنگ اچھا معلوم ہوگا۔ اگرچہ وہ پیشہ ور مصور نہیں تھے لیکن شوق کے طور پر اختیار کی ہوئی اپنی مصوری کا کمال انہوں نے طرح طرح سے دکھایا۔ پھولوں، پھلوں اور پرندوں کی وہ ایسی عمدہ تصویریں بناتے کہ وہ بالکل اصلی معلوم ہوتی تھیں۔ انہوں نے اپنی اور دوسروں کی کتابوں کے جو خوبصورت سرورق بنائے ہیں وہ ان کی مصوری اور خطاطی کے اِس ہنر کو اچھی طرح ظاہر کرتے ہیں۔ مصوری کی تاریخ پر بھی ان کی اچھی نظر تھی۔ دنیا کے بڑے مصوروں پکاسو، وین گاف اور مائیکل اینجلو وغیرہ کے شاہکاروں کے نام پہلی بار میں نے انہیں کی زبان سے سنے۔
نیرمسعود پتنگ لڑانے اور چمٹانے دونوں کے ماہر تھے۔ انہیں پتنگوں کی ساری شکلوں، قسموں اور ناپوں (پیسلچی سے آڑے پونتاوے تک) کا علم تھا۔ احمدآباد کے ایک صاحب جو پتنگوں کے بہت شوقین تھے اورنیرمسعود سے جن کی مسلسل مراسلت بھی تھی انہوں نے ایک بار لکھنؤ کی پتنگوں کے بارے میں معلوم کرنا چاہا تو نیرمسعود نے ہر طرح کی پتنگ کی بہت عمدہ رنگین تصویر بناکر پوری ایک کتاب بنادی۔ پھر اس کتاب کی بہت عمدہ جلد باندھ کر اور اس پر ریکسین کا بہت اچھا سا غلاف چڑھا کر اُن صاحب کو تحفةً بھیج دی۔ کتاب پاکر وہ خوشی سے جھوم اٹھے۔
نیرمسعود نہ صرف کتابوں کی بہت عمدہ جلدیں باندھتے تھے بلکہ جو کتابیں ٹیس کی سلائی کی وجہ سے پوری طرح نہ کُھل پاتیں ان کی سلائی کھول کر ان کی جزبندی کردیتے اور تب وہ پوری طرح کھلنے لگتیں۔
خطاطی نیرمسعود کا شوق بھی تھا اور شغل بھی۔ جن لوگوں کے پاس نیرمسعود کے خطوط ہیں یا جنہوں نے اُن کی تحریر کہیں دیکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ نیرمسعود کا خط کتنا سڈول، شائستہ اور نفیس تھا۔ فرصت کے اوقات میں وہ اکثر قرآنی آیات اور حضرت علی کے اقوال بہت عمدہ خط میں لکھ کر انہیں طغروں کی شکل دے دیا کرتے تھے۔ اپنی بیروزگاری کے زمانے میں جب میں بہت پریشان تھا، انہوں نے مجھے حضرت علی کا یہ قول بہت خوبصورت خط میں لکھ کر دیا تھا:
عَرَفتُ ربِّی بِفَسخِ العَزَائِمِ (پہچانا میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے)
یہ طغرہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
یہی نہیں نیرمسعود ہر طرح کی خطاطی اور تمام طرح کے خطوں سے واقف تھے۔ ان کے ایک قریبی دوست (ذکر آگے آئے گا) اسلم محمود کو خطاطی سے بڑی دلچسپی تھی۔ ان کے پاس خطاطی کے فن پر بہت عمدہ اور قیمتی کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ نیرمسعود نے ان کو تمام طرح کے خطوں کے نمونے بناکر دیے تھے۔ مصوری کے سامان کی طرح نیرمسعود کے پاس خطاطی کا بھی پورا سامان موجود تھا۔ اس سامان میں پکّی روشنائیاںاور دو طرح کے قلم تھے۔ ایک جدید طرز کے جو نئی نئی شکل میں بازار میں آنے لگے تھے اور دوسرے پرانی طرز کے۔ پرانی طرز والے قلموں کی صورت یہ تھی کہ وہ نرکل اور سیٹھے کی بالشت بھر کی چھوٹی چھوٹی خول والی چھڑیاں بازار سے لاکر اُن کے ایک سرے کو چھیل کر جلی اور خفی دونوں طرح کے خطوں کے لےے اُن کی نوکیں اور قط بناتے تھے۔
0
’ادبستان‘ کی تعمیر کے وقت مسعودحسن رضوی نے اس کے بیرونی حصے میں ایک بہت خوبصورت باغ بھی بنوایا تھا جس میں پھلوں والے درختوں کے علاوہ تقریباً تمام معروف پھولوں کی کیاریاں اور روشیں تھیں۔ چبوترے پر اور برآمدوں میں گملوں اور ناندوں کی قطاریں رہتی تھیں جن میں کروٹن اور دوسرے آرائشی پودے لگے ہوئے تھے۔ غالباً اسی خوبصورت باغ کی وجہ سے نیرمسعود کو پھولوں اور پرندوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہوگی اور اسی دلچسپی نے شوق کی صورت اختیار کرلی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ درختوں، پھولوں، پتیوں اور پرندوں کو ان کے نام سے پہچانتے تھے اور پھولوں اور پتیوں کی بو اور تاثیر سے بھی واقف تھے۔ پرندہ کوئی بھی ہو اور کتنی ہی دور شاخ پر بیٹھا ہو، اسے پہچان لیتے تھے اور اگر آنکھ سے اوجھل ہوتا تو اس کی بولی سے بتادیتے کون سا پرندہ ہے۔ بچپن میں انہیں یہ بھی شوق تھا کہ وہ تیز دھوپ میں کُڑکّی لگاتے اور گھنٹوں بیٹھ کر اس کڑکّی میں چڑیوں کے آنے کا انتظار کرتے اور جب چڑیا پکڑ لیتے تو اسے پنجرے میں ڈال کر اس کے دانے پانی کا بہت خیال رکھتے اور آتے جاتے اپنی چمکاروں سے اس کا دل بہلاتے۔ ۱۹۷۷ءمیں جب انہوں نے ایران کا سفر کیا تو پرندوں سے اپنی محبت کی وجہ سے انہوں نے وہاں کی دکانوں پر ایک کتاب کو ڈھونڈنے میں بڑا وقت صرف کیا اور وہ جو کہتے ہیں ’جویندہ یا بندہ‘ وہ بات سچ نکلی اور کتاب انہیں مل گئی۔ یہ کتاب تھی : ”پرندگانِ ایران۔“
یہاں نیرمسعود کے دو اور شوقوں کا بھی ذکر ضروری ہے۔ بعد میں یہ شوق خالی وقت میں ان کا مشغلہ بن گئے۔ ایک زمانے میں انہیں جاپانیوں کے دو ہنر اس لےے بہت اچھے لگنے لگے تھے کہ ان کے اندر خود ایک صنّاع موجود تھا۔ ان ہنروں میں ایک تھا اِکے بانا (ikebana) اور دوسرا اوری گیمی (origami)۔ اِکے بانا پھولوں کی خوش ترتیبی اور اوری گیمی کاغذ کو موڑ کر اسے ایک خوبصورت شکل دینے کا فن ہے۔
’ادبستان‘ پہنچنے پر اکثر میں دیکھتا کہ وہ اپنے باغ سے توڑے ہوئے تازہ پھولوں کی عمدہ ترتیب سے کوئی اچھا سا گلدستہ بنارہے ہیں یا کاغذوں کو موڑ کر نئی نئی شکلیں دے رہے ہیں۔ ان شکلوں میں کوئی اچھی سی گڑیا، پیاری سی چڑیا، خوبصورت سا پنجرہ، میز کرسیاں بلکہ پورا صوفہ سیٹ ہوا کرتا۔ اس طرح کی چیزیں وہ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی ثمرہ کے لےے جسے وہ بہت چاہتے تھے، ہر دوسرے تیسرے دن بناتے تھے پھر اسے اپنے ڈرائنگ روم میں بنی کارنس پر سجا دیتے تھے۔
نیرمسعود انگریزی کے مشہور رسالے ’ریڈرس ڈائجسٹ‘ کے مستقل خریدار تھے۔ ایک دن میں اُن کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو دیکھا بیچ والی میز پر جہازی سائز کی ایک بہت خوشنما کتاب رکھی ہے۔ کتاب کا نام تھا : “Things to Make And Do”۔ ’ریڈرس ڈائجسٹ‘ کے زیر اہتمام بہت عمدہ کاغذ پر چھپی ہوئی اس مخصوص کتاب میں طرح طرح کی خوبصورت چیزوں کو بنانے کے طریقے بتائے گئے تھے۔ میں کتاب اٹھاکر دیکھنے لگا تو بولے: ”آپ بھی منگوا لیجئے، بڑے کام کی چیز ہے۔“ اُن کے کہنے پر میں نے بھی اس کتاب کو منگوالیا۔ اس کتاب میں انوکھی اور عمدہ چیزوں کے بنانے کے طریقوں کو دیکھ کر نیرمسعود خالی وقت میں ویسی ہی چیزیں بناتے اور انہیں اپنے ڈرائنگ روم میں سجادیتے۔
طرح طرح کے اپنے شوقوں اور مشغلوں کو پورا کرنے کے ساتھ وہ خانہ داری سے متعلق امور بھی بخوبی انجام دے لیتے۔ ایک دن باہر سے کوئی صاحب آئے اور ’ادبستان‘ کے بیرونی حصے (اپنے والد کے انتقال کے بعد نیرمسعود اسی حصے میں رہنے لگے تھے) میں بنے ہوئے لوہے کے آدھے قد کے دروازے پر کھڑے ہوکر دیکھا کہ چبوترے پر تہمد اور بنیان پہنے ایک شخص مسہری میں نواڑ ڈال رہا ہے۔ اُن صاحب نے نواڑ ڈالنے والے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے تحکمانہ انداز میں کہا:
”سنو! ذرا اندر سے نیر صاحب کو بلادو۔“
”کہےے میں ہی نیر ہوں۔“ نیرمسعود نے نواڑ چھوڑ کر اُن سے کہا۔
”مذاق مت کرو۔ جاﺅ اور نیر صاحب کو بتادو فلاں شہر سے فلاں صاحب ملنے آئے ہیں۔“
”میں ہی نیر ہوں جناب۔“
”واقعی؟“
جی۔ اندر تشریف لائیں۔ یہ کہہ کر نیرمسعود نے انہیں اپنے ڈرائنگ روم میں لاکر بٹھادیا۔ وہ صاحب اتنا خفیف ہوئے کہ جب نیرمسعود کپڑے بدل کر ڈرائنگ روم میں آئے تو بہت دیر تک وہ ٹھیک سے بات نہیں کرسکے۔
مسہری میں نواڑ اور پلنگ میں باندھ ڈالنے کے علاوہ وہ نل اور بجلی کی چھوٹی موٹی خرابیوں کو خود ہی ٹھیک کرلیتے تھے اور محرم میں گھر کی پتائی بھی خود ہی کر ڈالتے۔ پودوں کو پابندی سے پانی دیتے اور جب تب کیاریوں اور گملوں کی گڑائی بھی کیا کرتے۔ ان کے پاس لکڑی کا ایک بہت بڑا ڈبہ (اس ڈبے کا ذکر ’عطرِکافور‘ میں کیا گیا ہے) تھا جس میں طرح طرح کے اوزار رکھے رہتے تھے۔ میں نے اکثر اُنہیں ان اوزاروں سے الجھتے دیکھا۔
نیرمسعود کے بہت سے شوقوں میں سے ایک شوق فلم بینی کا بھی تھا۔ اچھی ہندوستانی فلموں کے ساتھ وہ اچھی انگریزی فلمیں بھی دیکھتے:
“The Ten Commandmsents”, “Ben Hur”, “Mackenna`s Gold” اور “God Father” وغیرہ اُن کی پسندیدہ فلمیں تھیں۔ ہدایت کاری میں الفریڈ ہچکاک کے بہت قائل تھے۔ لکھنؤ کے سنیما ہالوں میں ہچکاک کی لگنے والی ایک بھی فلم ان سے چھوٹتی نہیں تھی۔ ہچکاک کی ہدایت کاری کے بہت سے کرشمے میں نے بارہا ان کی زبان سے سنے۔ الفریڈ ہچکاک کو اپنی فلموں میں سادہ سے منظروں کے ذریعے ہراساں کردینے والے اسرار پیدا کردینے میں کمال حاصل تھا۔ بدن میں خوف اور سراسیمگی کی لہر دوڑادینے والی ہچکاک کی ایک فلم کے بارے میں وہ یہ واقعہ بھی بتاتے تھے: ایک بار وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ ہچکاک کی فلم ”سائیکو“ دیکھنے گئے۔ یہ فلم دیکھ کر اُس دوست کے دل میں ایسا ڈر سمایا کہ واپسی میں راستے میں اسے بہت زور کا پیشاب لگا لیکن اس دوست نے پیشاب اس لےے نہیں کیا کہ اس کے لےے اسے کسی سنسان گوشے میں جانا پڑتا۔
ہندوستانی ہدایت کاروں میں ستیہ جیت رے، بمل رائے، مرنال سین، شیام بینیگل اور رشی کیش مکرجی انہیں بہت پسند تھے۔ موسیقاروں میں نوشاد اور خیام کے بہت قائل تھے۔ پکی آوازوں میں سہگل اور طلعت محمود کے دلدادہ تھے۔ اداکاری میں دلیپ کمار، بلراج ساہنی، موتی لال، سنجیوکمار، نصیرالدین شاہ اور عرفان خاں کے لےے کہتے تھے ان کی اداکاری اداکاری معلوم ہی نہیں ہوتی۔ خاتون اداکاروں میں میناکماری، مدھوبالا، وحیدہ رحمان، ریکھا اور اسمتاپاٹل سے بہت متاثر تھے۔ مدھوبالا کے لےے اکثر کہا کرتے، ایسے متناسب خطوط والا کوئی دوسرا چہرہ ہندوستانی سنیما میں اب شاید نہ دکھائی دے۔ تکنیک، فوٹو گرافی اور ہدایت کاری کے اعتبار سے ’مغلِ اعظم‘ اور ’شعلے‘ کو بڑی فلموں میں شمار کرتے تھے۔
0
فلم بینی کے ساتھ کھیلوں میں بھی نیرمسعود کی بڑی دلچسپی تھی۔ بچپن میں کھیلوں کی طرف اُن کے مائل رہنے کے بارے میں لکھا جاچکا ہے۔ قلم سنبھال لینے کے بعد اگرچہ میدان میں انہوں نے کوئی کھیل نہیں کھیلا لیکن کھیلوں سے ان کی محبت کم نہیں ہوئی۔ اخبار، ریڈیو اور ٹی۔ وی نے انہیں اِن کھیلوں سے دور نہیں ہونے دیا۔ ان کے پسندیدہ کھیلوں میں کرکٹ سرِفہرست تھا۔ ٹسٹ میچوں کے زمانے میں جب ٹی وی نہیں تھا وہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے کمنٹری سنتے رہتے اور جب کمنٹری نہیں سن رہے ہوتے تو کچھ کچھ دیر بعد اسکور معلوم کرلیتے۔ ٹی وی آجانے کے بعد وہ اہم یک روزہ میچوں کے دوران ٹی وی کے سامنے آکر بیٹھ جاتے۔ کرکٹ کی دنیا میں قائم ہونے والے ریکارڈ بھی انہیں خوب یاد تھے۔ مختلف ملکوں کے نامور گیند بازوں اور بلّے بازوں کے نہ صرف نام یاد تھے بلکہ ان کے بنائے اور توڑے ہوئے ریکارڈوں کا بھی انہیں خوب علم تھا۔ اسپن اور تیز گیند بازی کی قسمیں بھی جانتے تھے اور میدان کے چاروں طرف بلّے بازوں کے ذریعے جس طرح کی شارٹ کھیلی جاتی تھیں، انہیں بھی خوب سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ انہیں فیلڈ پلیسنگ (field placing) کا بھی پورا علم تھا۔ نوّے کے دہے تک کے پسندیدہ کھلاڑیوں کے ذکر کے ساتھ اُن کی خوبیاں بھی بتاتے رہتے۔
فٹ بال میں برازیل اور ارجنٹینا کے کھلاڑیوں کو بہت پسند کرتے تھے۔ پیلے اور میراڈونا کا نام اکثر زبان پر آتا رہتا۔ لان ٹینس کے جب بڑے ٹورنامنٹ ٹی وی پر دکھائے جاتے تو ایک آدھ گھنٹے ٹی وی کے سامنے آکر بیٹھ جاتے۔ ہاکی، بلیرڈ، بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس سے انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن شطرنج کے عالمی کھلاڑیوں کی خبر رکھتے تھے۔ اولمپک اور ایشیائی کھیلوں کے زمانے میں کچھ کچھ دیر کے لےے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اپنے پسندیدہ کھیل دیکھ لیتے۔
سیاست سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ دلچسپی محض اخبار کی شاہ سرخیوں کے پڑھنے کی حد تک تھی۔ سیاسی خبروں کے بجائے وہ کھیل کی خبریں زیادہ پڑھتے تھے۔ ریڈیو کے زمانے میں ایک دو خبر خوانوں کے خبر پڑھنے کا انداز انہیں بہت اچھا لگتا اس لےے ان کی خبریں سن لیتے تھے۔ ملک میں یا عالمی سطح پر جب کوئی بڑی اُتھل پتھل ہوتی تو اس کے بارے میں ضرور جان لیتے۔ سیاست کی دنیا ان کے لےے دنیائے دنی تھی اور آخر آخر ادب کی دنیا میں بھی انہوں نے دنی کا لاحقہ لگادیا تھا۔
0
آپ نے بہت سے ادیبوں کی کتابوں کے ورقِ انتساب پر اس نوع کی عبارت ضرور دیکھی ہوگی:
”اپنی اہلیہ…. کے نام جنہوں نے مجھے درونِ خانہ کی فکروں سے آزاد رکھا۔“
لیکن نیرمسعود کا معاملہ مختلف تھا۔ سال ۱۹۹۹ءمیں ’دی نیو پریس‘ نیویارک، کے زیرِ اہتمام انگریزی میں نیرمسعود کی سات کہانیوں کا مجموعہ “Essence of Camphor” کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کے سرورق پر ایک عجیب سی تصویر موجود ہے۔ یہ ایک کمزور سا نوعمر لڑکا ہے جو ایک پرانی وضع کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ لڑکے کی ٹانگیں گھٹنوں کے اوپر تک کھلی ہوئی ہیں اور اس کے پاؤں میں دبیز سول والی چپل ہے۔ اس کے بدن پر ایک معمولی سا کوٹ ہے جس کا اوپری بٹن کھلا ہوا ہے۔ لڑکا اپنے دونوں ہاتھ کرسی کے دونوں طرف ٹکائے ہے اور نگاہ ترچھی کےے داہنی جانب دیکھ رہا ہے۔ کرسی سے کچھ دور پر بغیر ہینڈل والی ایک ٹوٹی پھوٹی بالٹی رکھی ہے جو شاید کوڑے دان کے طور پر استعمال کی جاتی ہوگی۔’دی نیو پریس‘ کو بھیجنے سے پہلے نیرمسعود نے یہ تصویر مجھے دکھائی تھی۔ اس تصویر کا راز یہ ہے کہ بچپن میں نیرمسعود کو شدید قسم کا ٹائی فائڈ ہوگیا تھا اور اُن کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ تب ان کے والد مسعودحسن رضوی نے لکھنؤ کے ایک مشہور فوٹوگرافر مرزامغل بیگ سے یہ تصویر کھنچوائی تھی۔ نیرمسعود کی اس بیماری میں ڈاکٹر صفدر آہ نے اسفنج کرانے کا مشورہ دیا تھا اور نیرمسعود کا علاج بھی کیا تھا۔ زندگی اور موت کی جنگ لڑنے والے اس لاغر اور بیمار لڑکے کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ آئندہ کی زندگی میں یہ ہمہ وقت مصروف اور متحرک رہنے والا شخص ہوگا۔
0
جس تندہی اور دلجمعی کے ساتھ نیرمسعود لکھنے پڑھنے کے کاموں میں مصروف رہتے تھے اُسی مستقل مزاجی اور سنجیدگی کے ساتھ وہ اپنے گھریلو کاموں کو بھی انجام دیتے تھے۔ سابقہ سطور میں مختلف شغلوں میں ان کے مصروف رہنے کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ دوسروں پر منحصر رہنا انہیں آتا ہی نہیں تھا۔ پوری طرح صاحبِ فِراش ہونے سے پہلے تک وہ اپنے سارے کام خود کرتے رہے۔ شدید علالت کے زمانے میں اُن کے سرہانے ایک گھنٹی اس لےے رکھ دی گئی تھی کہ ضرورت پڑنے پر وہ کسی کو پکارنے کے بجائے یہ گھنٹی بجاکر اپنی بیوی یااولادوں میں سے کسی کو سہارا دینے کے لےے بلالیں، لیکن وہ اُس گھنٹی کو بجائے بغیر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لےے بستر سے اُتر آنے کی کوشش کرتے اور اس کوشش میں اکثر بستر سے گر کر زخمی ہوجاتے۔
نیرمسعود نے اپنی پوری زندگی بڑی سادگی سے گزاری۔ سادگی اور بے نیازی ان کے مزاج کا خاصہ تھی۔ اُن کے والد موٹر پر بیٹھ کر اور عمدہ سلا ہوا سوٹ پہن کر یونیورسٹی جاتے تھے لیکن نیرمسعود نے ساری عمر سادہ لباس پہنا۔ گرمی میں وہ آدھی آستین والی بش شرٹ اور پتلون پہنتے اور جاڑوں میں پوری آستین کی قمیص پر سیاہ دھاریوں والا ایک پیلا کوٹ۔ جاڑے گرمی کے یہ لباس پہن کر وہ ایک زمانے تک سائیکل پر یونیورسٹی جاتے رہے۔ اپنے ایران کے سفر میں وہاں سے وہ نیلے رنگ کی ایک بہت گرم جیکٹ خرید لائے تھے۔ تیز جاڑے میں پیلے کوٹ کی جگہ وہ یہ جیکٹ پہن لیا کرتے۔ اس جیکٹ کے بہت گرم ہونے کا احساس مجھے اُس وقت ہوا جب سردیوں میں ایک روز اُن کے گھر میں بیٹھے بیٹھے مجھے بہت دیر ہوگئی۔ اس بیچ سردی اچانک بڑھ گئی۔ میرے جسم پر اس اچانک بڑھ جانے والی سردی سے بچنے کے لےے لباس کافی نہیں تھا۔ میں چلنے لگا تو انہوں نے اپنی یہ جیکٹ مجھے دیتے ہوئے کہا: ”سردی بہت بڑھ گئی ہے۔ اسکوٹر پر اور زیادہ لگے گی۔ اسے پہن کر نکلےے۔“
میں نے وہ جیکٹ پہنی تو میرا پورا جسم گرم ہوگیا۔
ایران سے اس بہت گرم جیکٹ کے لانے کا سبب یہ تھا کہ نیرمسعود کو سردی بہت لگتی تھی۔ تیز جاڑے میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے وقت وہ یہ جیکٹ پہن لیتے اور کانوں کے گرد ایک اونی مفلر بہت کس کر باندھ لیتے، اس کے بعد بھی اگر انہیں سردی لگتی تو ایرانی جیکٹ پر گاؤن بھی پہن لیتے۔
0
لکھنؤ یونیورسٹی نیرمسعود کے گھر سے بہت دور تھی۔ جب وہ سائیکل پر یہ لمبا فاصلہ طے کرنے میں تھکنے لگے تو لوگوں کے کہنے پر انہوں نے اس سواری کو بدل دیا لیکن سواری کی اس تبدیلی میں بھی طبیعت کی سادگی کو باقی رکھا۔ اب انہوں نے گیئر والی ’وِکی‘ خریدی۔ اس ’وِکی‘ کے خریدنے کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ نیرمسعود کی عادت تھی کہ وہ ریزگاری (کھلے پیسے) اپنے غلّے میں ڈال دیا کرتے تھے۔ جمع ہوتے ہوتے یہ ریزگاری اتنی ہوگئی کہ جب ’وکی‘ خریدنے کا وقت آیا تو اس ریزگاری سے اس کی قیمت نکل آئی۔ کچھ عرصے تک وہ اسی ’وِکی‘ سے یونیورسٹی گئے پھر انہوں نے ’لونا‘ (Luna) موپڈ خرید لی اور ملازمت کے ختم ہونے تک وہ اسی موپڈ پر یونیورسٹی جاتے رہے۔
’ادبستان‘ کی تعمیر کے بعد نیرمسعود کے والد نے اپنے ڈرائنگ روم کو وکٹوریائی صوفوں، آبنوسی رنگ کی گدّے دار کرسیوں اور ایرانی قالینوں سے آراستہ کیا تھا لیکن والد کی وفات کے بعد جب یہ ڈرائنگ روم نیرمسعود کے استعمال میں آیا تو اس کی شان پہلی جیسی نہیں رہی۔ قالین، صوفے، گدّے دار کرسیاں ایک زمانے تک استعمال میں رہنے کی وجہ سے پرانی ہوکر اپنی رونق کھوچکی تھیں اس لےے انہیں وہاں سے ہٹالیا گیا لیکن ان کی جگہ نیرمسعود نے یہاں مہنگے قالین اور عمدہ صوفے رکھنے کے بجائے معمولی سے فرنیچر پر اکتفا کی۔ اس فرنیچر پر کتابیں اور رجسٹر ڈھیر رہتے۔ جب کوئی ملنے والا آجاتا تو یہ چیزیں وہاں سے ہٹالی جاتیں۔