نوحہء پشاور

یہ تحریر 602 مرتبہ دیکھی گئی

۱۶/دسمبر ۲۰۱۴ء کو مکتب میں شہید ہونے والے معصوم بچوں اور سنگینوں کے سامنے آجانے والی شیرِ دل خاتون کے نام

تری ظالم زمیں پر خوں کے منظر دیکھنے جاؤں
تجھے میں کس لئے شہرِ پشاور دیکھنے جاؤں

ہوئے تھے جن پہ روشن حرف آئندہ زمانوں کے
بریدہ ظلم کی تیغوں سے وہ سر دیکھنے جاؤں

خبر کیا تھی جو سر پر ہے اتر جائے گی مقتل میں
لہو کے داغ ہیں جس پر وہ چادر دیکھنے جاؤں

وہ جن سے چاند سی پیشانیوں پر زخم آئے ہیں
میں دستِ سنگ باراں میں وہ پتھر دیکھنے جاؤں

صفیں جو روشنیوں کے سبق پڑھنے کو نکلی تھیں
انہیں بارانیِ آتش میں ابتر دیکھنے جاؤں

نگہبانِ شہیدانِ ستم وہ شیر دل عورت
میں اُس کے خانہء ویراں کا منظر دیکھنے جاؤں

بدن وہ شاخِ گل جیسے وہ ماہ و مہر سے چہرے
میں ان سب کی قبائیں خون سے تر دیکھنے جاؤں

جنہیں محروم رکھا برقِ سوزاں نے دمکنے سے
چمک چھینی گئی جن کی وہ گوہر دیکھنے جاؤں

ہمکتے دوڑتے تھے جن میں طفلانِ شگفتہ رو
وہ خالی گودیاں اجڑے ہوئے گھر دیکھنے جاؤں

برادر چھٹ گیا جس سے پدر نے کھودیا جس کو
وہ خواہر دیکھنے جاؤں وہ دختر دیکھنے جاؤں

گرے ہیں زخم کھا کھا کر جو خاکِ ارضِ مکتب پر
نہ پہنچے لوٹ کر جو گھر وہ دلبر دیکھنے جاؤں

علم نوزادگاں کے قتل پر اونچے کیے جس نے
میں اس ظالم کا اس قاتل کا لشکر دیکھنے جاؤں

لہو جس نے کیے آموزگانِ حرف کے سینے
وہ نیزہ دیکھنے جاؤں وہ خنجر دیکھنے جاؤں

گلوں کے قتل پر تاجِ شجاعت جس نے پہنا ہے
ستم کی سلطنت کا وہ سکندر دیکھنے جاؤں

جہاں سیلابِ خوں میں سب ورق سارے قلم ڈوبے
میں ایسے مدرسے کے روزن و در دیکھنے جاؤں

جو اڑنے کے لیے پر تولنے والا تھا شاخوں سے
میں اس طائر کے اب ٹوٹے ہوئے پَر دیکھنے جاؤں

جو تھے کرسی نشینانِ دبستانِ مہ و انجم
میں اب زیرِ زمیں ان سب کے بستر دیکھنے جاؤں

وہ جو بغداد میں برپا ہے کابل میں کراچی میں
وہی ہنگامہء خوں اُس زمیں پر دیکھنے جاؤں

اِدھر بھی اِس طرف بھی اُس طرح کی آگ روشن ہے
میں شعلوں میں کدھر جلتے ہوئے گھر دیکھنے جاؤں

یہاں بھی بام و در ڈوبے ہوئے ہیں جس کی موجوں میں
وہاں بھی میں وہی خوں کا سمندر دیکھنے جاؤں
دعا
ہوا نے گُل کیا ہے خیمہ گاہِ نور میں جن کو
وہاں جاؤں تو وہ شمعیں منور دیکھنے جاؤں

جنہیں رکھا گیا تھا ظلم کے زندانِ ظلمت میں
انہیں، جاؤں تو مثلِ ماہ و اختر دیکھنے جاؤں

بہشتِ جاں میں جو کمھلا گئے کھلنے سے پہلے ہی
شگفتہ میں وہی پھولوں کے پیکر دیکھنے جاؤں

جو اونچا ہورہا ہے ہر طرف، اس کوہِ باطل کو
زمیں پر جو گرا دے وہ دلاور دیکھنے جاؤں

بہت اونچے اٹھائے جارہے ہیں ظلم کے نیزے
میں ان نیزوں پہ حرفِ حق منور دیکھنے جاؤں

اٹھے شمشیر بھی نیزے بھی خنجر بھی وہاں لیکن
اُنہیں اٹھتا ہوا پیشِ ستمگر دیکھنے جاؤں

جو حق بولیں جو حق سمجھیں جو حق پر جان دیں

اپنی
بہادر کربلا جیسے بہتر دیکھنے جاؤں