چیلیاں والا

یہ تحریر 405 مرتبہ دیکھی گئی

یہاں بھی خون بہا تھا کسی زمانے میں۔
ہری بھری یہ زمیں، یہ کمال زرخیزی
سما سکے گی نہ ہرگز کسی فسانے میں۔
کسی کا ساتھ نہ دے گی یہ رنگ آمیزی۔

وہ سردیوں کی دھؤاں دھار صبح کا منظر،
وہ رنجکوں کی چمک اور غریوِ توپ و تفنگ۔
مچا ہوا ہے عجب شور سا مرے اندر
مرے لیے نہ کبھی ختم ہو سکے گی یہ جنگ۔

یہ یادگار پریشاں، اُجاڑ اور محروم۔
گُلوں کی نہ کوئی چادر نہ پرچموں کی اُڑان۔
یہاں پہ کندہ ستائش کی تمکنت اور دھوم
نہ بن سکے گی کسی ولولے کے حق میں سان۔

کسے حلیف سمجھ لیں، کسے حریف کہیں؟
نہیں ملے گا جواب اس کا اب نصابوں میں۔
ہے سوچ ربط سے خالی، اُلٹ پُلٹ ہیں صفیں۔
پڑے ہیں اپنی ہی تاریخ کے خرابوں میں۔

بچھی تھی اور بچھے گی ہزار بار بساط۔
چلیں گے بازی گرانِ جہاں غضب کی چال۔
جو خرچ ہو گئے مر کھپ کے، اُن کا کیا احوال۔
صفِ جدال میں مہروں کی کچھ نہیں اوقات۔
۲۰۱۵ء