ولیم فاکنر

یہ تحریر 2701 مرتبہ دیکھی گئی

William Faulkner, portrait by Carl Van Vechten, December 11, 1954.

فاکنر کا فن امریکی ادب کی ٹیڑھی کھیر ہے۔ فاکنر کو پڑھنا اور سمجھنا دونوں محنت طلب کام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1946ء میں فاکنر کی ایک بھی کتاب ناشروں سے دستیاب نہ ہو سکتی تھی۔ اگر فرانسیسی اول اول اس کا جوہر نہ پہچانتے اور بعد ازاں اسے نوبل انعام نہ ملتا تو شاید آج بھی اس کی تصنیفات عام طور پر دستیاب نہ ہوتیں اور ہیرمین میلول کی طرح وہ بھی گمنامی کی زندگی بسر کرتا، حالاں کہ فاکنر ہیمنگوے سے کہیں زیادہ امریکی ہے اور اس کی اچھی تحریروں سے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے جنوبی علاقے کی مٹی کی مہک صاف آتی ہے لیکن اس کی مشکل پسندی اور اضطراب نے اسے مقبول نہ ہونے دیا۔ اُس کے بجائے ہیمنگوے امریکی ادب کا بین الاقوامی نمائندہ قرار پایا۔

ہیمنگوے نے ہمیشہ امریکہ سے گریز کیا ہے۔ اس کے ناولوں کے منظر و پس منظر یورپ اور افریقہ ہیں جنھیں امریکی تارکینِ وطن کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ یہ مفرور لوگ جا بجا اپنی جڑیں از سر نو پیوستہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایک عجیب طرح کا تنفر اور ڈر ہے، امریکہ کے لیے اور امریکہ سے، جو ان کے دل میں بیٹھا ہوا ہے اور جس کا سرچشمہ غالباً ہیمنگوے کے باطن میں ہے۔ اس کے برعکس، فاکنر اس زمین کا وفادار رہا جس نے اسے جنم دیا تھا۔ اس نے مسی سپی نامی ریاست کے ایک ڈھائی ہزار مربع میل کے قطعے کو، جو اس کا بخوبی دیکھا بھالا تھا، اپنے لیے کافی سمجھا۔ اسی کو وہ بار بار، طرح طرح سے، مختلف نقطہ ہائے نظر سے، اپنے کام میں لاتا رہا۔ یہ قطعہ گویا کرداروں، قصوں اور منظروں کی ایسی زنبیل ہے جس کے خزانے ختم نہیں ہو سکتے، ایسا کنواں ہے جس میں پانی سدا موجود رہتا ہے۔

فاکنر کا تعلق ایک جنوبی ریاست سے تھا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے شمال اور جنوب میں مزاج کا بہت فرق ہے۔ یہ فرق اتنا گہرا ہے کہ امریکی روح میں رخنہ بن گیا ہے۔ مشہور امریکی خانہ جنگی بھی شمال اور جنوب ہی کے درمیان ہوئی تھی اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جنوب کے سفید فام لوگ حبشیوں کو اپنا غلام بنائے رکھنے پر بضد تھے اور شمال کے سفید فام لوگ انھیں آزاد کر دینے کے حق میں تھے۔ خانہ جنگی میں بالآخر جنوب کو شکست ہوئی لیکن میدانِ جنگ میں فتح یا شکست کسی ایسے معاشرتی مسئلے کا حل ثابت نہیں ہوا کرتی جس کی جڑیں باطن میں دور تک پھیلی ہوں۔ جنوب میں کالوں کو بدستور تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا رہا اور اب بھی دیکھا جاتا ہے۔ فاکنر نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں دراصل یہ دکھایا ہے کہ خانہ جنگی ابھی ختم نہیں ہوئی، اسی شد و مد سے جاری ہے۔ صرف پیکار کی سطحیں بدل گئی ہیں اور یہ کہ امریکی سرزمین پر کالوں کا وجود اور ان کے ساتھ بدسلوکیاں، جو مسیحی تعلیمات کے صریحاً منافی ہیں، پھانسوں کی طرح ہیں جو سفید فام باشندوں کے ضمیر میں کھٹکتی رہتی ہیں __ اور شاید ضمیر تو نام ہی ایسی چیز کا ہے جس میں کچھ نہ کچھ پھانس کی طرح کھٹکتا رہے۔

لیکن فاکنر ان فن کاروں میں نہیں جو کسی نقطہ نظر کو زندگی پر مسلط کر دیتے ہیں۔ اس کا وژن تو ایک جہان ہے، جس میں جنگل اور دریا اور جانوروں کی صورت میں فطرت بھی موجود ہے، شکاری بھی ہیں__ جانوروں کے بھی، کالوں کے بھی اور اپنے ضمیر کے بھی__ شکار بھی، اور جہاں زندگی، ہومر کے پیر مردِ بحری کی طرح، شکلیں بدل کر سامنے آتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کی بدلتی ہوئی شکلوں میں ہمیں اپنے سوالوں کے جوابوں کی جھلکیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ فاکنر کو پڑھے بغیر امریکی روح کی پنہاں کشمکش کے بارے میں رائے قائم کر لینا ایسا ہی ہے جیسے ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کی گہرائی کا اندازہ لگانا۔