غزل

یہ تحریر 620 مرتبہ دیکھی گئی

کسی کے باغِ بدن سے چرا کے لائی ہے
ہوا یہ پھول کہاں سے اٹھا کے لائی ہے
وہ ایک لہر جو اٹھتی ہے دل میں تیرے لیے
گہر بہت طرفِ جاں بہا کے لائی ہے
مجھے کیا تو اُسی شمع نے کیا روشن
جو اپنی لو کو ہوا سے بچا کے لائی ہے
گیا جو روٹھ کے تو اور کوئی کیا لاتا
خزاں ہی موسمِ گل کو منا کے لائی ہے
ترے حضور مری جاں یہ شمعِ عشق مجھے
دیارِ ماہ وشاں میں گھما کے لائی ہے
ہوا کے خوف سے یہ روشنی ہمارے لیے
چراغ لائی ہے لیکن بجھا کے لائی ہے
مہ و ستارہ و گل، دیکھ میری طبعِ رواں
سخن کے طشت میں کیا کیا سجا کے لائی ہے
یہی ہوا جو یہ طوفاں اٹھا رہی ہے، مجھے
گرفتِ موجِ بلا سے چھڑا کے لائی ہے
کل اُس کے خانہء تن میں انیس آنکھ مری
مجھے بہشت کے منظر دکھا کے لائی ہے