نعت

یہ تحریر 209 مرتبہ دیکھی گئی

دہر میں ظلم کے جتنے خدا رہے ہیں حضور
ترے غلام سے نظریں چرا رہے ہیں حضور

میں جانتا ہوں مقدم ہے تیرا ذکر مگر
مِرے خدایا مجھے یاد آ رہے ہیں حضور

خوشا وہ خواب کہ قَدمَین میں پڑا ہوں میں
اورمجھ کو دیکھ کے بَس مُسکرا رہے ہیں حضور

یہ کائنات کی نَبضیں، یہ گردشیں ،یہ زماں
ٹھہر گئے تھے کہ تشریف لا رہے ہیں حضور

یہ اِلتباس، مرے ساتھ اب بھی ہوتا ہے
میں سو رہا ہوں اور مجھ کو جگا رہے ہیں حضور

پڑأ ہوا تھا میں ” بابُ السّلام ” کے باہر
اک اجنبی نے بتایا بلا رہے ہیں حضور