نظم

یہ تحریر 226 مرتبہ دیکھی گئی

میں نے یہ چہرہ کب اور کہاں دیکھا
ٹھہرا ہوا سیاہ پانی
ٹوٹے ہوئے مکانات
مکانات کے نیچے تھوڑے فاصلے پر دو چھوٹے مکانات
آنکھوں سے کچھ مشابہ
پانی کے درمیان معمولی اشیاء سے بنی چھتیں
ان پر چہرے کا گمان ہوتا ہے
پانی کا پھیلا ہوا حصہ اور تھوڑی خشکی
جیسے چہرے پر چھائیں آ گئی ہو
آسمان کا نیلا رنگ بادلوں کے ساتھ
ادھر ادھر پھیلی ہوئی اشیا
چہرے کو داغدار بناتی ہیں یا خوبصورت؟
آلائشوں سے بھرا پانی…….
سیاہ پانی کا سفر بھی لمبا ہو سکتا ہے
سیاہ پانی ٹھہرا ہوا پانی تو نہیں
گدلے پانی میں وقت کا کوئ اور تصور ہے
بہتے ہوئے پانی میں بھی وقت ٹھہر جاتا ہے
گدلے اور سیاہ پانی کو دیکھتے ہوۓ
آنکھیں گھبراتی ہیں اور نہ پتھراتی ہیں
شفاف مناظر بھی گدلے دکھائی دیتے ہیں
جیسے دن کا اجالا رخصت ہو گیا ہو
ان گدلے پانیوں کے آس پاس کچھ بوسیدہ اور ٹوٹے مکانات
وقت کا وہی مفہوم سمجھاتے ہیں جو گدلے پانی کا مقدر ہے
میں ان اشیاء کو کب سے دیکھ رہا ہوں
خواب میں اور بیداری میں
بےکار اور پھینکی ہوئی اشیا کب اور کس طرح
گدلے پانی کے آس پاس ایک چہرے کو بنانے میں مصروف ہیں
یا وقت نے رفتہ رفتہ چہرے کی تشکیل کے لیے
اشیاء کو خاموشی کے ساتھ یکجا کر دیا
تیز ہوا کا جھونکا تھا یا کچھ اور
معمولی اشیا کی آوارگی میں تعمیر بھی پوشیدہ ہوتی ہے
کبھی انہیں یکجا ہونے میں بہت وقت لگتا ہے
یہ زیادہ وقت کبھی کتنا مختصر ہو جاتا ہے
تاریخ میں پہلے بھی کبھی آلائشوں سے چہرے کی تشکیل ہوئی ہوگی
ایک نیلا آسمان اپنے بادلوں کے ساتھ بے چہرگی کے چہرے کا سر ہے اور پیشانی
اور وہ کتنا پاس دکھائی دیتا ہے
انسانی چہرہ کتنی معمولی اور ٹوٹی پھوٹی اشیا سے بن سکتا ہے اور بگڑ سکتا ہے
ایک بچہ ان آلائشوں کے درمیان کسی شۓ کا متلاشی ہے
یاد نہیں آتا میں نے یہ چہرہ کب اور کہاں دیکھا
لاشعور کا کوئی ویران علاقہ۔۔۔۔
گدلے اور سیاہ پانی کے ساتھ ایک بچے کی تلاش کا یہ سفر کتنا ڈراتا اور پریشان کرتا ہے
26/08/2023