نظم

یہ تحریر 286 مرتبہ دیکھی گئی

چلے تو جا رہے ہیں گو خبر نہیں کہ ہیں کہاں۔
یہ دل جو لے چلا ہمیں اسی کو اتنا ہے پتا
کہ راستے تو سیکڑوں ہیں، منزلیں کہیں نہیں۔

چلے ہیں جس کو ڈھونڈنے تو وہ سدا سفر میں ہے۔
غبار ہے کہیں، پسِ غبار کون ہے، یہ کیا خبر۔
ہے اپنی نیند ساتھ ساتھ اور خواب گھر میں ہے۔

سُنا ہے کل یہاں تھا وہ، نہ جانے آج ہے کہاں؟
ہماری تشنگی کو راس آگئیں سراب کی کہانیاں۔
جو پھل ملے گا صبر کا وہ راہِ بے ثمر میں ہے۔
۵۱۰۲ء