نظم

یہ تحریر 487 مرتبہ دیکھی گئی

اب ہمارے پاس باقی ہیں سراب۔
جھڑ چکے اُمّید کے اشجار سے
ایک اک کر کے ہمارے سارے خواب۔
خاک اُڑتی ہے چمن میں رات دن۔
خار و خس پر ہے شباب۔
اب یہاں آنکھوں میں مطلق نم نہیں۔
خشک ہیں مدّت سے راوی اور چناب۔
کس کمر بستہ شتابی سے غرض
کھولتے ہیں، بند کرتے ہیں کبھی،
عمرِ رفتہ کی کتاب۔
کتنا رکھّیں یاد، کتنا دیں بھُلا؟
دے نہیں سکتا کوئی اس کا
قیامت تک جواب۔
دل کی شہ سرخی میں ہے
کیسی خبر، کیا حادثہ؟
کیا سنائیں، کیا پڑھیں، سمجھائیں کیا،
جن کو اپنا ہی نہ ہو کچھ بھی پتا۔
لکھتے جاتے ہیں بڑی تفصیل سے
ظاہر و باطن کے ہر دُبدھے کا ماپ۔
ہاتھ میں لیکن قلم ہے جب تلک
نامکّمل ہے حساب۔

جن بیابانی تماشوں میں کٹی عمرِ دراز
ان میں پانی تھا نہ آگ۔
سیمیائی عشق، وہمی چاہتیں،
دھوپ میں جیسے یہاں صابن کا جھاگ۔
ہم سے اندھوں کی سمجھ ہے دُور بیں۔
گُھپ منجھیلی رات میں
گاتے ہیں بیٹھے بھیرویں۔
اپنی ڈفلی ہے نہ راگ۔

اب ہمارے پاس باقی ہیں سراب
جن میں ہم پڑھتے ہیں اطمینان سے
تشنگی کے آخری دو چار باب۔
۲۰۱۵ء