میرے لوگ مر رہے ہیں

یہ تحریر 185 مرتبہ دیکھی گئی

( فلسطینی نژاد امریکی شاعرہ کی ایک نظم کا ترجمہ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گورے شاعروں نے سرخ رنگ کے پھولوں پر نظمیں لکھی ہیں
مگر میں ان معصوم بچوں کا نوحہ لکھ رہی ہوں
جو اسرائیلی ٹینکوں پر پتھر برساتے ہیں
اور چند لمحوں بعد خود سرخ پھول بن جاتے ہیں ،
میں ان شاعروں کی مداح ہوں جو چاندنی کے عاشق ہیں
مگر فلسطینیوں نے جیل کی کال کوٹھڑی سے کبھی چمکتے چاند کو نہیں دیکھا ،
چاند حسین ہے
پھول بھی خوب صورت ہیں ،
میں جب اداس ہوتی ہوں تو اپنے مرحوم والد کی قبر کے لیے پھول چنتی ہوں ،
میری ایک سہیلی جسیکا ہے
جو مجھے ہر سال ” رمضان مبارک ” کے روایتی پیغام بھیجتی ہے ،
میری خواہش ہے کہ وہ یہ سلسلہ ترک کر دے ،
میں ایک امریکی لڑکی ہوں ( فلسطینی نژاد ! )
اور جب ہم امریکی کسی خطے میں قدم رکھتے ہیں تو اسے برباد کر دیتے ہیں ،
موت کے استعارے ، شاعروں کو مرغوب ہوتے ہیں،
وہ سمجھتے ہیں کہ روحوں کے لیے استعارے اور آوازیں اہم ہوتی ہیں ،
میں وعدہ کرتی ہوں کہ جب میں مروں گی تو تمہیں ایک آسیب کی صورت ہمیشہ ستاؤں گی ،
ایک روز میں بھی پھولوں پر نظمیں لکھوں گی
جیسے وہ میرے ہی لیے باغ میں کھلے ہوں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور ہندی / وحید الرحمن خان