چین کی سپر گائے

یہ تحریر 346 مرتبہ دیکھی گئی

ہے خبر گرم اور خبر محض گرم ہی نہیں ، تازہ اور خالص بھی ہے ۔ خبر یہ ہے کہ ادھر ہم جب مقدس گائے کی پرستش میں مصروف تھے ، ادھر چین میں ایسی گائے کی ایجاد پر تجربے ہو رہے تھے جو دودھ کی نہریں بہا سکتی ہو ۔ آخر یہ تجربے کامیاب ہوئے اور چین نے ایسی
” سپر گائے ” تیار کر لی ہے جو ایک سال میں اٹھارہ ٹن دودھ دے سکتی ہے اور جسے چینی ، شیر مادر کی طرح پیا کریں گے ۔
چین ایک کثیر آبادی کا ملک ہے اور دودھ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں ستر فی صد گائیں دوسرے ملکوں سے درآمد کی جاتی ہیں ۔ پاکستان سے گائیں تو نہیں البتہ گدھے ضرور بھیجے جاتے ہیں ۔ ” گدھوں” سے ہماری مراد چار ٹانگوں والے گدھوں سے ہے کہ وہاں ان کی بہت مانگ ہے اور ” خرگوشت ” کے برگر شوق سے کھائے جاتے ہیں ۔
اب ہم دوبارہ اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ( گاؤ آمد و خر رفت )
چین نے جس طریقہء کار سے یہ گائے تیار کی ہے ، سائنس کی زبان میں اسے ” کلوننگ ” کا نام دیا گیا ہے ۔ اردو میں اسے ” تنسیل ” کہا جا سکتا ہے کہ اس میں کسی خاص ( بہترین اوصاف کے حامل ) جاندار کی نقل تیار کی جاتی ہے ۔ اردو دان طبقے کو سمجھانے کے لیے ہم حالی کا ایک شعر پڑھیں گے :
قیس سا پھر کوئی اٹھا نہ بنی عامر میں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
اگر ہم مجنوں جیسے دو چار دیوانے پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ ” تنسیل ” کے ذریعے ممکن ہے ۔ ایسے یگانہ روزگار شخص کی نقل تیار کی جا سکتی ہے جو اصل کے مطابق ہو گی اور اور اس کے لیے ” وصل لیلی ” کی ضرورت بھی نہیں ۔ ( تھوڑے لکھے کو زیادہ سمجھو )
یہ ” سپر گائے ” چین کی ایک یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے عین اس وقت تخلیق کی جب ہماری یونی ورسٹیوں کے سائنس دان ، ایچ ای سی سے منظور شدہ رسائل کے لیے تحقیقی مقالات تحریر کر رہے تھے ۔
بہر حال ہم چین کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایسی سپر گائے بنائی اور امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں ہمارے ہاں بھی یہ گائیں درآمد کی جائیں گی ۔ جواب میں ہم انہیں ایسے ایسے سپر گدھے بھیجیں گے کہ وہ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خامہ خراب