من موجی

یہ تحریر 708 مرتبہ دیکھی گئی

ٹولنٹن مارکیٹ کے سامنے بس رُکی اور دھکم پیل سے بچتے بچاتے اُترنے میں کامیاب ہوئی تو نظر دائیں جانب کھڑے داڑھی مونچھ مونڈھے آدمی پر پڑی جس کا ہاتھ دراز قد جوان نے تھام رکھا تھا جو میری طرف دیکھ رہا تھا اور نگاہیں ملتے ہی منہ ذرا سا پھیرتے ہوئے بولا ۔
’’آج تک چڑھنے ، اُترنے کی تمیز نہیں آ سکی ۔ ‘‘
میرے چہرے پر پھیلی ناگواری کا دائرہ اور پھیل گیا ۔
’’اب یہی دیکھ لیں ۔ بس میں موجود لوگ اتریں گے تو باہر والوں کے لیے جگہ بنے گی ۔ مگر نہیں ۔ چڑھنے کی پڑی ہوتی ہے ۔ ‘‘
’’کہتے تو ٹھیک ہو شہزادے ۔ یہی بات لفٹ میں داخل اور خارج ہوتے محسوس کرتا ہوں ۔ ‘‘
’’بس چچا ، آوے کا آوا بگڑا ہے، بے حد غیر تربیت یافتہ قوم، کوئی کل سیدھی نہیں ۔ ‘‘ جوان آدمی سگریٹ کا گہرا کش لیتا ہے اور دھواں چھوڑتے ہوئے پوچھتا ہے ۔ ’’اچھا، یہ بتائیں انارکلی جانا ہے یا سیدھا ٹھکانے پر چلیں ۔ ‘‘ وہ گھڑی دیکھتاہے اور بات جاری رکھتا ہے ۔ ’’جلدی بتائیں جلدی ۔ کہا بھی تھا گاڑی میں چلتے ہیں مگر آپ کی پیدل واک ۔ ‘‘
درمیانے قد، گندمی رنگت، سرمئی بالوں والا آدمی زیر لب مسکرایا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہنے کے لیے ہونٹ ہلا پاتا، ایک منچلے کا من مچل گیا ۔
سانولی سلونی سی ۔ ۔ ۔
جی یہ میں ہوں ، سانولی سلونی اور اتنی بار سن چکی ہوں کہ شمار ممکن نہیں سو اب کوئی کہتا ہے تو غصہ نہیں آتا بلکہ سچ کہوں تو کبھی کبھی اچھا بھی لگتا ہے جب کہنے والا بھی کچھ اچھا اچھا دکھائی دے جیسے ابھی ابھی مگر جب ہم نے بیک وقت اُسے دیکھا تو بے چارا جھینپ سا گیا گو ہم نے زبان سے کچھ نہیں کہا ، پھر بھی وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا پرانی انارکلی کو بڑھ گیا اور ہم تینوں ، دوسری طرف، آگے پیچھے، چل پڑے، پھر بائیں مڑے اور پھر دائیں اور یوں وزیر خان کی بارہ دری پہنچ گئے جہاں جوان آدمی اپنے چچا کو بٹھاتا ہے اور کہیں چلا جاتا ہے جبھی میں ایک کرسی کھسکاتے کھسکاتے اس کے قریب اپنی نشست جمالیتی ہوں ۔
ہم آفتابی کرنوں سے خود کو توانا محسوس کر رہے ہیں ، ایک دوسرے سے بے نیاز، بظاہر بے نیاز، مگر کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو بھی دیکھ لیتے ہیں اور دوبارہ اپنی اپنی گود میں رکھی کتاب پر جھک جاتے ہیں اور یہ عمل نہ جانے کب تک دہرایا جاتا مگر کچھ یوں ہوا کہ وہی جوان آدمی پھر آدھمکا ، چائے سے بھرے سفید فومی کپ تھامے ، چند لمحے بھونچکا سا رہ گیا، پھر مسکرا دیا اور خوش مزاجی سے ہ میں ایک ایک کپ تھما دیا اور خود چلتا بنا اور یوں ہم دو اک دوجے کے روبرو ہو گئے جو ایک عرصہ سے ایک دوسرے کو بارہ دری میں دیکھتے ضرور تھے مگر بات کرنے میں پہل نہ کر پائے تھے ۔
’’آپ کیا کام کرتے تھے ؟‘
’’کیا مطلب ؟‘‘
’’ملازمت وغیرہ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’آپ یقینا مجھے کوئی ریٹائرڈ بابا سمجھ رہی ہیں ۔ ‘‘
میں چہچہاتی ہوں چونکہ میں اکثر کچھ نہ کچھ گنگناتی ہوں ، بچپن سے، اپنے تئیں میں بھی میڈم ہوں ، یوں ہی بیٹھے بیٹھے، کھڑے کھڑے، چلتے چلتے کچھ نہ کچھ گنگناتی رہتی ہوں ، بارہا مجھے خود معلوم نہیں ہوتا کہ میں گنگنا رہی ہوں ، بس مست الست ہو جاتی ہوں سو جب میں چہچہاتی ہوں ، ہنستی ہوں تو مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ میری ہنسی، ایک مترنم گیت سی ہنسی، لطیف جذبات جگا دیتی ہے اگر کوئی بہرہ نہ ہو ،مگر وہ میرے کھلکھلاتے چہرے کو دیکھتے، آنکھوں میں جھانکنے سے گریز کرتے، قدرے توقف سے کہتا ہے ۔
’’ میں نے کبھی کوئی ملازمت نہیں کی ۔ ‘‘
’’واءو ۔ ۔ ۔ ‘‘ سیٹی سی بجی ۔
’’نہیں ۔ ایک بار کی تھی ۔ یہی ایک دو سال ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’پھر ؟‘‘
’’پھر کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’کچھ تو ضرور ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ ‘‘ میں پھر چہچہاتی ہوں ۔
’’ارے نہیں ، پردے کے پیچھے بھی کچھ نہیں ، پھر بھی آپ کی دلچسپی کے لیے کہے دیتا ہوں ، مجھے جو بھی عورت پسند آئی اس نے پہلی بات یہی کی کہ کیا کرتے ہو میاں ، پھر تقاضا کیا کہ کوئی کام کروں ، کچھ کماءوں مگر آفریں ہے مجھ پر، اپنی ہٹ پر رہا ۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ اِتراتے ہوئے اپنے کندھوں سے قمیص کا کپڑا کچھ اوپر اٹھا کر چھوڑتا ہے تو خیال کے پردے پر کسی فلم کا کوئی ٹپوری ہیرو ابھرتا ہے مگر میں جھٹکتے ہوئے پوچھتی ہوں ۔
’’تو پھر ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’اور پھر کچھ نہیں ۔ اپنی دھن میں رہتا ہوں ۔ ‘‘
میرے چہرے پر تحیر کی ایک لہر آتی ہے، دوسری جاتی ہے، آنکھوں میں سوال اُبھر رہے ہیں مگر خاموش رہتی ہوں کہ یہی مناسب معلوم دیتا ہے کہ پہلی گفتگو میں سب جان لینے کی للک مناسب نہیں ، دوسری گفتگو کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں سو میری تال میل کی سمجھ بوجھ، جو خواہ مخوا نہیں آتی، کام آئی اور ملاقاتوں کا ، باتوں کا، سلسلہ چل نکلا اور دنیا جہان کی باتوں کا باب کھل گیا مگر تان اس بات پر ٹوٹتی کہ کمائی نہ کرنے کی اصل وجہ بتائیں حالانکہ وہ بارہا بتا چکے تھے مگر پھر بھی مجھے ان کی بات پر یقین نہ آتا کہ کوئی آدمی یونہی ویلا کیسے رہ سکتا ہے;238; کوئی تو وجہ ہو گی اور ممکن ہے کہ کوئی وجہ نہ ہو بلکہ بات وہی ہو جو بتا دی گئی مگر مجھے دنیا اتنی پیچیدہ ملی ہے کہ سیدھی بات بھی سیدھی نظر نہیں آتی بلکہ اس میں کوئی نہ کوئی ٹیڑھ تلاش کرتی رہتی ہوں ۔
’’کہیں کوئی لڑکی کا چکر ;238; بڑے ناکام عاشق چلتے پھرتے ملتے ہیں جو زندگی کے کسی نازک موڑ پر ٹھیر گئے یا ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’بس کر دو لڑکی، بس کر دو ۔ تم تو پیچھے پڑ گئی ہو ۔ ‘‘ من موجی نے کرسی چھوڑ دی اور کمر پر ہاتھ رکھے سر ممکن حد اوپر اٹھایا اور دوبارہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔ ’’ آج دھوپ زیادہ تیز نہیں ! چلو، اندر چلیں ۔ ‘‘ اور ہم اپنی اپنی کرسی احاطے سے گھسیٹتے گھسیٹتے بارہ دری کی مرکزی عمارت میں لے جاتے ہیں ، اردگرد نظر دوڑا کر آخری کونے میں نشستیں جما لیتے ہیں اور ہماری نگاہیں کبھی دریچوں میں غٹر غوں غٹرغوں کرتے کبوتروں کا تعاقب کرتی ہیں ، کبھی ایک دوسرے کے سراپے کا جائزہ لیتی ہیں جبھی میں اس کی آنکھوں میں اپنے کنڈلے بالوں کے لیے تحسین محسوس کر لیتی ہوں جبکہ میری جلد سے، خوبصورتی کا پیمانہ بھلے قبضہ گیروں کے پراپیگنڈے کے زیر اثر کچھ ہو، ایک کشش بہرکیف مخصوص ہے جو مَیں اوائل عمری میں ہی جان گئی تھی اور میرے ہونٹ ۔ ۔ ۔ یہ ہمہ وقت دعوت دیتے ہیں ، خبیث کہیں کا ۔ ۔ ۔ نمکین نمکین کہتے آنکھوں میں نمک ڈال گیا ۔
میں اِدھر اُدھر ہو چلی تھی مگر دیکھیں ، میں انسان ہوں ، کوئی ٹرین نہیں جو ایک پٹڑی پر رہے حالانکہ ٹرین بھی پٹڑی بدلتی ہے اور پٹڑی سے اترتی بھی ہے اور ہمارے ہاں کچھ زیادہ اتر جاتی ہے تو مَیں تو پھر انسان ہوں ، سو تھوڑا بہت اِدھر اُدھر ہونا کوئی بڑی بات ہے نہ بری البتہ بڑی بات یہ ہے کہ گفتگو میں وقفے ضروری ہوتے ہیں اور ان وقفوں میں لفظ ترتیب دینے کے ساتھ نیا پہلو بھی مل جاتا ہے جیسے احاطے میں ہوتے تو کچھ پرے باغیچے میں نصب کسی پتھریلے بنچ پر بیٹھے کسی لڑکی لڑکے کو تاڑتے اور ایک دوسرے پر مردم شناسی کی مہارتوں کا مظاہرہ کرتے یا عجائب گھر کی دیوار کے پار جو ہے، زیر بحث آ جاتا یا مال روڈ اور اُس کا حسن، اُس کے پیڑ ۔ ۔ ۔ کیا کیا بتاءوں کہ کیا کیا باتیں اور پھر ۔ ۔ ۔
’’میرا ایک بھائی بینکر رہا ہے، یہ ُاسی کا لڑکا ہے، یہ بھی بینکر ہے، معقول آمدن، صبح جانا، شام کو آنا، بیوی بچوں میں کھپ جانا ۔ یہ کیا زندگی ہوئی ۔ ’’ وہ کچھ توقف کرتا ہے ۔ ’’ مزے کی بات بتاءوں ؟‘‘
’’جی کیوں نہیں !‘‘
’’اُسے گھومنے پھرنے کا بے حد شوق تھا، جنون سمجھ لو، مگر کیا ہوا;238; پہلے سوچتا رہا، ڈھنگ سے پڑھ لوں ، پھر نوکری لینے کے جتن، پھر نوکری پر رہنے کی تھکن، پھر بیوی آ گئی، پھر بچے آ گئے، سارا وقت یہی کہتا رہا، اک ذرا فرصت کی دیر ہے، پھر دنیا دیکھنے نکلیں گے ۔ ‘‘
’’پھر ؟‘‘
’’پھر کیا، جب اس کی،‘‘ وہ ہاتھ نچاتا ہے، ’’یہ اِک ذرا فرصت ملی، تب گوڈے جواب دے گئے، پھر اخبار دیکھتا تھا، پھر ٹی وی دیکھتا تھا، پھر بیوی کی پخ پخ، پھر بچوں کی چخ چخ ۔ ۔ ۔ ‘‘
میں کرسی کے بازو پر کہنی اور رخسار پر مٹھی ٹکا کے من موجی کی آنکھوں میں جھانکنے لگی اور وہ بار بار نظریں چرانے لگا جس سے مجھے عجب لطف آنے لگا اور نہ جانے کب تک یہ آنکھ مچولی چلتی کہ وہ جھنجھلا اُٹھا ۔
’’یہ مجھے گھورنا بند نہیں کر سکتی کیا ۔ ۔ ۔ !‘‘
میں نے قہقہہ لگاتے ہوئے سر دائیں بائیں ہلایا تو وہ جھینپ سا گیا ۔
’’میری آنکھوں کے بجائے میری باتیں دیکھیں ۔ ‘‘
’’ میں تو دونوں دیکھوں گی ۔ ‘‘ مجھ میں ذرا شوخی در آئی تو من موجی کے چہرے پر بھی بالآخر مسکراہٹ سنور گئی ۔
’’اچھا، ایک بات رہ گئی ۔ میرے بھائی نے اپنے بیوی بچوں ہی نہیں ، میری بھی اچھی دیکھ ریکھ کی، سو میں ویلا، من موجی ۔ ‘‘
’’امپریسو ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ویسے میرا خرچ ہی کیا ہے، سگریٹ میں نہیں پیتا، کچھ اور میں نہیں پیتا، بس چائے پی لیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’اور ؟‘‘
’’اور اپنی مرضی سے جیتا ہوں ، اپنے لیے جیتا ہوں ۔ اب یہ بھی کوئی جینا ہوا کہ صرف چولہا چوکا چلانے کے لیے کام کرتے رہو ۔ ‘‘ اور وہ ترنگ میں بانہیں پھیلاتے ہوئے کہتا ہے ۔ ’’ میں ہوں من موجی ۔ ‘‘ پھر یکایک اس کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور وہ سنجیدگی کی چادر اوڑھ کر کہتا ہے ۔ ’’میرا بھائی کبھی وہ نہیں کر سکا جو کرنا چاہتا تھا، اس کا لنگوٹیا دوسرے شہر میں بیمار پڑا تھا اور وہ مجھ سے روز اُس کی بات کرتا تھا مگر ملنے نہیں گیا اور وہ چلا گیا ۔ ‘‘ وہ کہیں گھورتا ہے اور نہیں بھی اور جب اُس کی نظر دوبارہ میری نظر سے ٹکراتی ہے تو نظر چرا کر کہتا ہے ۔ ’’ اماں بیمار پڑی تو ہر دس منٹ بعد فون کر کے حال پوچھتا، روپے پیسے کی ذرا کمی نہ ہونے دی، ہسپتال میں پرائیویٹ کمرہ لے کر دیا مگر خود پاس بیٹھنے کی حسرت رہ گئی ، اُسے کبھی وہ دن یاد آتے تو پھوٹ پھوٹ کر روتا اور میں اُسے تسلی دیتا کہ بے فکر رہو، اماں نے جب بھی پوچھا، میں نے یہی کہا کہ تم یہیں ہسپتال میں ہو، کبھی دوا لینے گئے ، کبھی ڈاکٹر کو بلانے، کبھی بل بھرنے، فکر نہ کرو ۔ اماں تم سے خوش خوش گئی ۔ ‘‘ اور اُس کی آنکھیں تسلی بخش محلول سے بھر گئیں تو میں کسی اور طرف دیکھنے لگی اور خالی آسمان، خالی چہرے، بھرے پیڑ پودے دیکھتے دیکھتے میری نظر ایک جگہ ٹھیر گئی جہاں ایک کبوتر اور کبوتری ۔ ۔ ۔ اور میری ہنسی پھوٹ پڑتی ہے اور میری ہنسی تب کھسیانی ہو جاتی ہے جب وہ بھی اس میں شریک معلوم دیا اور تبھی نہ جانے کیسے میرے منہ یہ الفاظ نکل گئے ۔
’’کبھی عورت کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ؟‘‘
وہ چند لمحے بغلیں جھانکتا رہا، پھر ہنگارا بھرتے ہوئے اُٹھا اور ہاتھ سر کے اوپر لے جا کر ایک دوسرے میں پھنسا کر بچا کھچا زور بازو آزما کر، قدرے تلخی سے کہہ گیا ۔
’’پھر ہوتی ہے ملاقات ۔ ‘‘
میں حیران ، میں پریشان دیکھتی رہ گئی اور یہ کیفیت اگلے دن بھی رہی جب وہ بارہ دری میں نظر نہ آیا، بار بار صدر دروازے کی طرف دیکھتی، کرسی پر پہلو بدلنے کی کوشش کرتی، یکسوئی سے محروم، اِدھر اُدھر تاکتی رہی، فون کی سکرین ایویں جگمگاتی رہی مگر وہ نہ آیا ۔ افسوس ہوا کہ کبھی فون نمبر نہیں لیا، پھر خیال آیا کہ وہ فون استعمال نہیں کرتا، کبھی سوچتی کہ ایسا سوال نہیں کرنا چاہئے تھا ، پھر سوچتی کہ بچہ تھوڑی ہے، باشعور آدمی ہے، پھر بھی کسی کو کونے میں دھکیلنے کی کیا ضرورت ، کیا معلوم کوئی مسئلہ ہو یا کچھ اور یا، سادھو، سنت ، فقیر، ملنگ اور نہ جانے کیا کیا سوچتی رہی اور گلی محلے کے کئی چہرے خیال کے پردے پر لہرا گئے اور ان میں ایک عکس اس شاعر کا بھی تھا جس کی موت کی خبر ابھی ایک دو روز پہلے یہیں بارہ دری میں پڑھی تھی جس کے متعلق من موجی نے ذرا تفصیل سے بتایا تھا، جس نے دنیا داری کے راءج معیارات اور مطالبات تج دیے تھے اور مَیں زندگی کے اس پہلو پر سوچتی، اُس دن معمول سے زیادہ دیر ،وہیں بیٹھی رہی ۔
اگلے روز بھی یہی ہوا، اس سے اگلے روز بھی، البتہ اس سے اگلے روز من موجی نے بارہ دری میں بے حد شوخی سے، ہیلو سانولی، پکارا تو میری باچھیں کھل گئیں اور جب سوال پر معذرت خواہی تو اُس نے بات بدل دی اور ایک ڈبا پکڑا دیا جس میں انناس کے ٹکڑوں سے سجی پیسٹری تھی جس کی کریم چاٹتے ہوئے میری نگاہ اُٹھی تو وہ مجھے ہی دیکھ رہا تھا جبھی اُس نے شگفتگی سے پیشکش کی کہ چاہوں تو سوال دہرا سکتی ہوں مگر میں ٹال گئی ، پھر اُس نے پوچھا ۔
اب آپ اپنی کہانی سنائیں ۔ آپ کے متعلق میں کچھ بھی نہیں جانتا ۔ کیا کرتی ہیں ، بال بچے وغیرہ ۔ ۔ ۔ ‘‘
میں مسکرا دی ۔ ’’جان کے کیا کریں گے!‘‘
’’ہاں ۔ یہ تو ہے ۔ پھر بھی ۔ ۔ ۔ ‘‘
اور خاموشی پھر درمیان آ جاتی ہے جسے ختم کیے بغیر ہم اپنے اپنے راستے چل پڑتے ہیں اور جب انارکلی کے چوراہے پر پہنچتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ میں بھی کیا عجب عورت ہوں جب بولنے کا وقت ہوتا ہے تو خاموش اور جب خاموش رہنا بہتر ہو تو بک بک اور نقصان ۔ ۔ ۔ اسی سوچ میں معلوم نہیں کب تک غلطاں رہتی کہ بس آ گئی اور بچتی بچاتی ایک نشست پر دُبک گئی اور کھڑکی کے شیشے سے باہر جھانکنے لگی جبھی میری نگاہ اُس پر پڑی جو بھنگیوں کی توپ کے پاس، پنچھی گھر کے نیچے، کبوتروں کو دانہ ڈال رہا تھا اور ملاحت اُس کے چہرے پر رقصاں تھی جہاں سے وہ ناچتی ناچتی میری آنکھوں میں پہنچ گئی جو یوں چمک اُٹھیں کہ اماں بھی چونک گئیں اور سبب جاننا چاہا مگر میں گنگناتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں پہنچ گئی اور کندھے سے بوجھ اتار کر نرم لچکیلے بستر پر دراز ہوگئی اور تکیے سے کھیلنے لگی اور کھیلتی کھیلتی دوہری ہو گئی اور نیند کی وادی میں اُتر گئی ۔
برتن ٹوٹنے کی آوازیں ، کبھی ایک کے بعد ایک، کبھی ایک ساتھ، چیخنے چلانے کی آوازیں ، تھپڑ برسنے کی آوازیں ، مکے پڑنے کی آوازیں ، اور رونے کی آواز ۔ ۔ ۔ ہچکیوں میں ڈوبتی، ابھرتی ۔ ۔ ۔
یہ بے آرام رات، یہ بے آرام راتیں اور راتوں سے نکلتی صبحیں اور فرار کی راہوں پر رواں دواں قدم، تیز تر، اٹھتے ہی جا رہے تھے جو وزیر خان کی بارہ دری میں تھم گئے جہاں من موجی اور اُس کا بھتیجا فومی کپوں سے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے ۔ بھتیجے نے کرسی خالی کی اور اپنے لیے دوسری کھسکا لایا اور بیٹھتے ہی بولا ۔
’’آج آپ نے بڑی مزے کی چائے مس کر دی ۔ ‘‘
’’کیوں ، دکان بند ہو گئی کیا ؟‘‘
بھتیجا کھلکھلا اُٹھا ۔ ’’حکم کیجیے، دوبارہ کھل جائے گی ۔ ‘‘
من موجی ہماری باتوں سے محظوظ ہوتا رہا، چسکیاں بھرتا رہا اور جب اس نے کپ بھتیجے کو تھمایا تو وہ بھی بڑا گھونٹ بھر کر، ابھی آیا، کہتے ہوئے چلا گیا اور چند منٹ میں دو کپ تھامے پلٹ آیا، ایک من موجی کو پکڑایا، دوسرا مجھے دیا جو شکریہ کہتے ہوئے، چائے ذرا ٹھنڈی ہونے کے لیے، ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا ۔
’’تو آپ جناب انھیں یہاں چھوڑ کر روز کہاں غائب ہو جاتے ہیں ؟‘‘
’’غائب ۔ ۔ ۔؟‘‘ قہقہہ ۔ ’’یہیں ، آپ کے پڑوس میں ، سٹیٹ بینک میں ملازم ہوں ۔ ‘‘
’’واءو ۔ ۔ ۔ ‘‘ اور پھر سیٹی سی بجی ۔
’’اچھا چچا، اب چلتا ہوں ۔ ‘‘ اور میری طرف دیکھتے ہوئے ۔ ’’ باقی باتیں پھر سہی ۔ ‘‘اور یہ جا وہ جا ۔ کچھ کہہ نہیں سکتی کہ بارہ دری میں رونق کیوں قدرے کم تھی، دھوپ میں تیزی تھی کہ مکان کے مستقل مکیں ابھی آئے نہیں تھے اور اس خاموشی، اس تنہائی میں ہم بھی خاموش، بس چائے کی چسکیاں ، من موجی شڑ شڑ پیتا جبکہ میں ، میری کیا بات ہے، پتا بھی نہ چلنے دیتی، جیسے پانی ہو، میٹھا ٹھنڈا پانی، پھر کپ زمین پر رکھتے ہوئے کلام کیا ۔
’’تو کیا اب آپ اپنا سوال دہرانا چاہیں گے ؟”‘
’’کونسا ؟‘‘
’’وہی اپنی کہانی ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ارے نہیں ۔ جب سہولت ہوگی ، خود ہی بتا دیں گی ۔ ۔ ۔ ‘‘چند ثانیے بعد پوچھتا ہے ۔ ’’کیا آپ اپنا سوال دہرانا چاہتی ہیں ؟‘‘
میرے چہرے پر مسکراہٹ کے معنی خیز رنگ اُبھرے ، چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی حالانکہ چیزیں چھپانے میں کافی مشاق ہو چکی ہوں ، سو میں نے موضوع یکسر بدل دیا ۔
’’ اپنے بھتیجے کے متعلق بتائیں ۔ ‘‘
’’کیا بتاءوں ، بتایا تو ہے باپ کی طرح بینکر ہے، بڑا اچھا بچہ ہے مگر یہ طرزِ معاشرت اسے بھی کھا جائے گی جس طرح اس کے باپ کو کھا گئی، زندگی کرنے کا یہ ڈھنگ ٹھیک نہیں ، کچھ اور ہونا چاہئے ۔ ۔ ۔ ‘‘ اور پھر قصے نے اس قدر طول پکڑا کہ گھنٹوں گزر گئے اور وہ تھک گیا اور خاموش ہو گیا مگر یہ خاموشی زیادہ دیر نہ رہ سکی کہ اُس کے منہ سے نکل گیا ۔
’’کیا میں آپ کو چھو سکتا ہوں ؟‘‘
میں ہکی بکی رہ گئی، چند لمحے یونہی گزر گئے، پھر میری نگاہیں جھک گئیں ، سانسیں بے ترتیب ہو گئیں ، ایک ہلکا سا ’جی‘ سنائی دیا اور پھر اگلے ہی لمحے حیرت کا ایک اور باب کھل گیا، من موجی نے واقعی چھو لیا، پلک جھپکنے سے پہلے، سیدھے ہاتھ کی الٹی طرف پہلی انگلی کی پہلی پور سے چھو ا اور کرسی پر سمٹ گیا ۔