حیران کن انسان

یہ تحریر 1474 مرتبہ دیکھی گئی

جب سنا کہ ایک ادیب نے صدارتی ایوارڈ مع اچھی خاصی رقم وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے تو ایک خوشی کی لہر سی اٹھی، بات آگے پھیلائی تو ڈاکٹر ابرار احمد نے تصدیق کے متعلق استفسار کیا، تب ادیب کا نمبر ڈھونڈا اور فون کی گھنٹی بجا دی۔ دوسری طرف سے ادیب نے تصدیق کی اور جب وجہ معلوم کرنا چاہی تو انھوں نے سوال کیا کہ کیا آپ نے میری کوئی تحریر پڑھی ہے؟ میں نے بتایا کہ جی ہاں، فلاں فلاں۔ تو ان کا جواب تھا کہ یہی کافی ہے۔


میرے دوست، میرے کرم فرما رشید مصباح نے ایک بار جیل روڈ پر چٹکی بجا کر سگریٹ کی راکھ گراتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے عہد کے بڑے لکھنے والوں سے مکالمہ ضروری ہوتا ہے اور مجھے اس پر فخر ہے کہ میرا جن بڑے لکھنے والوں سے مکالمہ ہوا، ان سے تعارف، ان سے رابطے کا وسیلہ میری کوئی نہ کوئی تحریر بنی جیسے ذکا الرحمن سے عالم تمثال، رشید مصباح سے کھلے پنجرے کا قیدی اور محمد سلیم الرحمن صاحب سے انسان نما۔۔۔ یہ ادب لطیف کے اسی سالہ نمبر میں شائع ہوا تھا اور اس پر سلیم صاحب کا خط ملا، صدیقہ بیگم کہتی تھی کہ اسے فریم کروا کر رکھو، سو میں حوصلہ پا کر ریڈنگ پہنچ گیا اور جب دراز قامت ادیب کی طرف سلام کے لیے ہاتھ بڑھایا تو انھوں نے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ یہ ایک احساس ہے جو ان کی نظموں میں جا گزیں ہے۔
دوسری یا تیسری ملاقات میں مَیں نے انھیں ایک افسانہ پیش کر دیا، ہیولا، اور جب دو تین ماہ بعد سویرا شائع ہوا تووہ شامل نہیں تھا، میں نے کبھی استفسار نہ کیا کہ پسند نہیں آیا ہوگا، اس کے بعد سویرا کے افسانہ نمبر کی خبر ملی تو میں نے اپنے تئیں اپنا ایک بہتر افسانہ پیش کیا کہ یہ افسانہ نمبرکے لیے۔۔۔ اور مجھے جھٹکا لگا جب سلیم صاحب نے بتایا کہ انھوں نے افسانہ نمبر کے لیے ہیولا چھ سات ماہ سے سنبھال رکھا ہے۔ میرے اصرارپر انھوں نے نیا افسانہ بھی رکھ لیا اور دو تین ہفتوں بعد بتایا کہ نہیں بھئی، افسانہ نمبر میں ہیولا ہی شائع ہوگا۔ یہ بعد میں۔ ادارت اور خلوص کا اندازہ کیجیے کہ سال بھر افسانہ سنبھالے رکھا کہ یہ خاص شمارے میں آنا چاہئے۔
میں پیر کے پیر ریڈنگ جاتا اور خاموشی سے سنتا رہتا، اگر آپ بھی ان صحبتوں سے محظوظ ہوئے ہیں تو آپ بھی سلیم صاحب کے شگفتہ مزاح کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے، وہ زیادہ سنتے ہیں اور کم کم بولتے ہیں مگر جب میں نے کچھ مشاہیر کے متعلق اظہار خیال کا آغاز کیا، جن میں سے کچھ کے نام لینا ابھی فساد پھیلانے کے مترادف ہے تو سلیم صاحب نے اپنی کرسی کے پاس جگہ دینا شروع کر دی۔ پھر ایک دن جب چیخوف کی کہانی اور اردو کہانی اور اس پر مجلسی تنقید اور مدرسی تنقید کے تناظر میں بات کی تو وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
چیخوف کو معافی دے دیں۔ اور یوں کریں کہ چھٹی والے دن میرے گھر آ جایا کریں، یہاں تفصیلی بات ممکن نہیں۔
اور کیا چاہئے۔ سلیم صاحب کا گھر اور میرے سسرال میں دو گلی کی دوری ہے۔ سو جب سسرال جانا، بیوی بچوں کو اُدھر چھوڑنا اور خود اِدھر۔۔۔۔آپ ایک موضوع چنیں اور وہ آپ کو اس پر درجن بھر کتابیں بتا دیں گے اور یہ بھی کہ کونسی پہلے پڑھنی چاہئے اور تو اور، ان کے پاس ہو تو وہ دیں گے بھی، کم از کم مجھے تو دیتے رہے ہیں، بنا کہے بھی۔ جب میں اپنی پہلوٹی اکلوتی کتاب کے افسانے چھانٹنے کی الجھن میں پھنسا ہوا تھا تو مجھے جو بہتر لگے، ان کے مسودے میں نے سلیم صاحب کو دیے کہ ان میں دیکھیں، کون کون سے کتاب میں شامل ہو سکتے ہیں اور انھوں نے کمال مہربانی سے پڑھے اور چنے۔
یہاں کئی ایک دوست محمد سلیم الرحمن صاحب کے فن پر بات کریں گے مگر میں کچھ اور بات کرنا چاہتا ہوں اگرچہ میں ان کا کام دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں اور پریشان بھی کہ میں کتنا نالائق واقع ہوا ہوں جو کولہو کے بیل کی طرح زندگی کاٹے جا رہا ہوں اور آپ بھی یقینا حیران ہوئے ہوں گے جب آپ نے ہومر کی منظوم رزمیہ اوڈیسی کو جہان گرد کی واپسی کی صورت نثری، داستانوی چاشنی میں لپٹی دیکھا ہوگا اور جب آپ نے جوزف کونریڈ کے مشکل ناول، ہارٹ آف ڈارکنس کو قلب ظلمات کی صورت پڑھا ہوگا اور جب آپ نے ہسپانوی ناول کو، جس کا مصنف معلوم نہیں ہو سکا، چلتا پرزہ کے نام سے ایک ہی نشست میں پڑھا ہوگا یا ان کے توسط چیخوف کو اس کے ڈراموں میں ملے ہوں گے، چیخوف پرسلیم صاحب کے مضامین پڑھے ہوں گے یا جب آپ نے ان کے افسانے پڑھے ہوں گے جن سے انھوں نے پہلو تہی کی کہ بہت کم لکھے، اور جب آپ نے ان کی نظموں کو پڑھا جن کی دوبارہ اشاعت اگلے مہینوں ہوئی اور۔۔۔ اور جب آپ نے ان کی مدون داستانوں سے حظ اٹھایا، جب آپ نے اردوڈکشنری بورڈ کی لغت کی دو جلدیں دیکھی ہوں، تب آپ کو اس عالم بے بدل کو ملنے کی خواہش ضرور ہوگی جیسے میں نے بھی کی اور جب میں ملا اور ملتا ہوں تو ایک حیران کن انسان ملتا ہے، بے حد شانت، ٹھہرے پانی کی طرح، جس کی تہہ میں موتی ہوتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ موتی لٹاتے بھی ہیں۔
جب میں نے قلب ظلمات پڑھا تو زبان گنگ، اس میں کئی الفاظ، جو بادبانی کی صنعت سے متعلق ہیں، لغات میں دیکھنا پڑتے ہیں اور میں نے کچھ نشان زد بھی کیے جو لغات میں بھی نہ مل سکے تو میں کتاب اٹھائے داروغہ والا پہنچ گیا۔ جی ہاں۔ وہ داروغہ والا چوک کی بغل میں مقیم ہیں اور ان کے گھر میں ایک باغیچہ بھی ہے جسے دیکھتے ہوئے وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ کبھی یہاں دن میں بھی جگنو نظر آتے تھے، اب راتوں کو بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اس روز انھوں نے بتایا کہ مجھ سے جو دو اچھے ترجمے ہوئے ہیں، ان میں یہ ایک ہے۔
دوسرا کونسا ہے؟
چلتا پرزہ
چلتا پرزہ کی روانی۔ اللہ اللہ۔ اور سلیم صاحب کی انکساری کی کہ یہ دراصل ہسپانوی میں بھی بہت ہی رواں دواں ہے۔
محمد سلیم الرحمنسے صاحبان سے ملنا اور یہ سوچنا کہ ہم نے ان سے کیا سیکھا؟ یہ بتایا نہیں جا سکتا، یہ محسوس کیا جا سکتا ہے، سچے سر کی طرح، مگر میں یہ بتانے کی کوشش کر سکتا ہوں کہ کتابوں سے، لفظوں سے قطع نظر، جو ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں، یہ ہے کہ معلومات ہضم کیسے کی جاتی ہیں، علم جذب کیسے کیا جاتا ہے اور زندگی کو دیکھا کیسے جاتا ہے، زندگی، انسان کی ہی نہیں، ہر جان دار کی زندگی اہم ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا صرف ہماری تو نہیں۔
ہم لوگوں سے ملنے کا ڈھب بھی سیکھ سکتے ہیں کہ ایک بار کیا ہوا، ہمارا ایک دوست، جو ہر جگہ حاضری لگوانا فرض جانتا ہے، وہ بھی ریڈنگ جانے لگا اور ہر بات میں ٹانگ اڑانے لگا۔ سلیم صاحب کی بے موقع، بے محل تعریف کے بہانے، تعلق داری نکالنے کے بہانے۔۔۔ تعریف سب کو خوش آتی ہے مگر کوئی ڈھنگ سے کرے تو۔۔۔ یہ سلسلہ کئی ہفتے چلا مگر ایک دن کیا ہوا کہ ہمارا وہ واقف جنگ، امریکہ اور خانہ جنگی پر تاریخ سے زنا بالجبر کا مرتکب ہو گیا تو میں نے دیکھا کہ سلیم صاحب کو اس قدر غصہ آیا کہ ان کے کانوں لوئیں تک سرخ ہو گئیں، مگر وہ ضبط کر گئے، کمال ضبط، بس اتنا بولے، نوجوان جس بات کا علم نہ ہو، اس بات میں دخل دینا ضروری نہیں ہوتا۔
اس دن کے بعد ریڈنگ کا کیفے سلیم صاحب کی صحبتوں سے محروم ہو گیا اور کئی ہفتے محروم ہی رہا تاآنکہ اس واقف کی آمد نہ رک گئی۔ اس دوران میں سلیم صاحب سے سبب دریافت کیا تو وہ بولے۔ یار، وہ آ جاتا ہے اور فضول باتیں کرتا ہے۔ اتنی فضول باتیں کوئی کتنی برداشت کر سکتا ہے۔
تو اس کو کہہ دیتے ہیں کہ آئندہ نہ آئے۔
نہیں۔ یہ مناسب نہیں۔ اس کا دل دکھے گا۔
نازک گلابی انگلیوں والی صبحوں سے معمور جہاں گرد کی واپسی جب پڑھی تھی تو سلیم صاحب سے استفسار کیا تھا کہ آپ نے یہ کارنامہ کس عمر میں انجام دیا؟
بائیس سال کا تھا۔
میں بغلیں جھانکتے ہوئے بولا۔ واہ۔ ہم تو بہت نالائق ہیں جی۔
نہیں۔ نالائقی کی بات نہیں، اصل میں صحیح عمر میں صحیح لوگ ملنے سے فرق پڑتا ہے جو آپ کو صحیح راہ پرڈال دیتے ہیں۔
کہیں پڑھا تھا، یا کہیں سنا تھا کہ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جس کی صحبت میں کوئی خود کو چھوٹا محسوس نہ کرے تو بات یوں ہے بھائی صاحب خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں سلیم صاحب سے شرف ہم کلامی ملا اور بدنصیب ہیں وہ لوگ جو کرونا کے سبب ان بیٹھکوں سے محروم ہو گئے ہیں، تمنا ہے کہ یہ آفت ٹلے اور ہم اس آستانے پر پھر جائیں، حیران کن باتیں سنیں، سمجھیں، سیکھیں اور میرے لیے اس کی معنویت اور بھی ہے کہ میں یہاں جی کا غبار نکالتا رہا ہوں، امید ہے کہ وہ دن پھر آئیں گے۔ جلد۔