غیر دلچسپ کہانی

یہ تحریر 784 مرتبہ دیکھی گئی

وحید میرا چٹھی رساں تھا ، وحید سے پہلے ریاض اور ریاض سے پہلے مرزا نوید بیگ تھا۔ مرزا نوید بادشاہ آدمی تھا۔ اُس کا ایک قصہ مَیں سبھی کو سنا چکا ہوں اور وہ ہے بھی بہت دلچسپ کہ جو سنتا ہے، ہنستا ہے، میں سر پیٹتا ہوں۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ایم اے کیے تین سال ہو چکے تھے ۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ مَیں نے ایم اے کیا تھا کبھی اور وہ بھی اردو میں ، پرائیویٹ۔ اردو میں ایم اے کرنے والوں کی کئی کہانیاں مشہور ہیں اور ڈرامے بھی بن چکے ہیں جن میں اردو میں ایم اے کرنے والا کسی چاند چہرہ کی فنتاسی کا شکار ہو جاتا ہے اور رُسوا ہوتا ہے ۔ مَیں بھی خواری کاٹ رہا تھا کہ ابا نے ایک دوست سے بات کی جس نے مجھے ایک اخبار میں لگوا دیا اور یوں میں منٹو والا صحافی بن گیا جسے مہینوں تنخواہ نہیں ملتی اور یہ ایک ایسے مہینے کی ایسی ہی رات تھی کہ میرے پاس سگریٹ خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے اور مَیں اپنے حصے کا کام نمٹا کر ٹی وی پر خبریں سن رہا تھا۔ ایک خبر ایسی چلی کہ شیخوپورہ میں زمیندار نے تنخواہ مانگنے پر بارہ سالہ ملازم کا ہاتھ چارہ کاٹنے والے ٹوکے سے کاٹ دیا۔ مجھ میں نہ جانے کہاں سے اتنا غصہ بھر گیا اتنا غصہ بھر گیا کہ بس ۔۔۔ اور سمجھ بھی نہیں آئی کہ کروںکیا؟ رفیقِ کار سے سگریٹ لے کر پھونکے۔ گالیاں بھی بک لیںمگر غصہ وہیں کا وہیں۔۔۔ اُن دنوں صحافی کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ جیسی جدات سے دور تھے، قلم کاغذ استعمال کرتے تھے اور مَیں نے سارے کا سارا غصہ لفظ بہ لفظ سطر بہ سطر صفحہ بہ صفحہ نکال دیا۔
رفیق کار نے جب پڑھا تب حیرت سے بولا کہ بابو یہ تو کہانی ہو گئی۔ وہ کہانی بغل میں لیے مَیں چند ایک اساتذہ کے پاس گیا جنھوں نے اِسے اچھا کہا اور سچی بات یہ ہے کہ مجھے بھی اچھی لگی اور مَیں نے جانا کہ یہی وہ کام ہے جس سے مجھے خوشی ملتی ہے اور یہی وہ کام ہے جو میں اس دنیا میں سب سے اچھا کر سکتا ہوں سو مجھے یہی کرنا چاہئے۔ پھر یوں ہوا کہ ایک استاد کے مشورے پر کہانی ایک رسالے کو اپنے پتے کے ساتھ بذریعہ ڈاک ارسال کردی۔ مہینوں گزر گئے بلکہ سال ہونے کو تھا کہ کہانی کی کوئی خبر نہ ملی تو ایک روز اسی استاد سے رسالے کے مدیر کا فون نمبر لیا ، گھنٹی بجائی اور یہ جان کر ہکا بکا رہ گیا کہ کہانی مہینوں پہلے چھپ چکی تھی اور رسالہ بھی چھ سات مہینے پہلے ارسال ہو چکا تھا۔
میرا ڈاک خانہ وہی ہے جہاں کبھی گلاب دین ہوتا تھا جس کی کہانی بڑی دلچسپ تھی اور کم دلچسپ میری بھی نہیں اگرچہ یہ بہتوں کو لگتی نہیں۔ پھر بھی کہنے میں کیا حرج ہے کہ میرے ڈاک بابو کی کہانی بھی دلچسپ ہے ، راجہ بھوج کی سنی جاتی ہے تو گنگو تیلی کی بھی سن لینی چاہئے لیکن یہ مَیں پہلے بتا دوں کہ اس کہانی میں نرتکیوں کا ذکر نہیں اور اب وہ نر تکیاں رہیں بھی نہیں جن کی کہانی بڑی دلچسپ ہوتی تھی۔ وہ لاہور بھی نہیں رہا جو بہت دلچسپ ہوتا تھا جہاں زندگی کے ست رنگ کھلتے تھے۔ چوبارے تھے، حویلیاں تھیں، میلے تھے، ٹھیلے تھے، پٹھورے اور پیڑے والی لسی تھی، حلوہ پوری، سری پائے اور بونگ اور نہاری اور کلچے بڑے بڑے۔ اب کلچے بھی چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں اور کھانے والے بھی ۔۔۔
یہیں ایک لوہار تھا جو ہفتے کی رات گلی میں بیٹھ کر بونگ پکاتا تھا اور سویرے سویرے گلی کے بچے پیالے بھر بھر لے جاتے تھے ، اُس نے کبھی کسی سے نہیں پوچھا تھا کہ وہ کون ہے؟ البتہ جو پیالہ ختم نہیں کر پاتا تھا وہ لوہار سے جگتیں ضرور سنتا تھا۔ وہ پیالے نہیں رہے، کٹوریاں ہیں اب چھوٹی چھوٹی، ٹھوٹھیوں جیسی نظر آتی ہیں۔ان دنوں کونڈے ہوتے تھے تو وہابیوں کے لڑکے بھی پڑھتے، کھاتے تھے، ختم پڑھے جاتے تھے تو ختم نہ کھانے والوں کا حصہ پڑھائی سے پہلے نکال لیا جاتا تھا، نفرتیں کم تھیں، پیار زیادہ تھا، بس جی وہ لاہوریے نہیں رہے، وہ لوہار نہیں رہا اور وہ موچی بھی نہیں رہا جو تہواروں پر مفت جوتے مرمت کرتا تھا، گاما بھی نہیں رہا جو محلے کے بچوں کو آوارہ گردی سے بچانے کے لیے پہلوانی سکھاتا تھا، لوک دانش بھری بیٹھکیں نہیں رہیں اور وہ تھڑے بھی نہیں رہے جو لوگوں کو جوڑتے تھے، اب چلتے پھرتے گوشت پوست کے روبوٹ ہیں اور روبوٹ کیا خاک دلچسپ ہوتے ہیں۔ ایک بار پروگرام کر دیے تو اسی ڈگر پر چلتے رہے جیسے مَیں یا پھر مَیں، صبح اُٹھنا، کام پر جانا، واپس آنا، بچوں سے تھوڑا بہت پیار کرنا، بیوی کی ڈانٹ سننا اور سو جانا۔ کوئی ہلچل نہیں اور جب ہلچل نہیں تو دلچسپی کیسی؟
مَیں ڈاک خانے میں لکڑی کے بنچ پر بیٹھا یہی سوچ رہا تھا کہ کبھی گلاب دین یہاں سے نکلتا تھا ، گھر گھر جا کر چٹھیاں بانٹتا تھا ، پڑھ کر سناتا تھا ، پیسے پہنچاتا تھا اور وصول کرنے والے وصولی سے پہلے چائے پانی پوچھتے تھے۔ اب مرزا ہے جس کا مَیں انتظار کر رہا ہوں کہ وہ آئے ، مجھے رسالے کے متعلق بتائے اور کوئی ایک گھنٹے بعد وہ آ بھی گیا۔ استفسار پر پہلے تو اُس نے میری شکل غور سے دیکھی ، پھر میرے حلیے پر حیرانی واری اور اس کے بعد میری نظروں سے دور ہو گیا۔ دس پندرہ منٹ بعد خاکی لفافہ تھامے واپس آیا اور میرا بازو پکڑ کر مجھے ڈاک خانے سے باہر لے گیا، ٹھنڈے گرم کا پوچھا اور کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بتایا کہ میرا گھر کئی بار ڈھونڈا تھا ، ملا ہی نہیں۔ اچھا ہوا مَیں آ گیا ورنہ وہ رسالہ واپس بھیجنے کی سوچ رہا تھا۔ مرزا سے یہ میری پہلی اور آخری ملاقات تھی ۔
پھر دھن دھن جاگے بھاگ کہ مجھے ریاض ملا۔ ڈاک کوئٹہ سے نکلتی یا کراچی سے ، دو تین دن میں میرے پاس ہوتی۔ وہ ایسے رسالے بھی پہنچا جاتا جو اکثر ڈاک بابو فضول مان کر کہیں پھینک دیتے ہیں۔ میری دانست میں وجہ یہ تھی کہ ریاض نے سائیکل کے پیچھے ڈاک سے بھرا تھیلا نہیں رکھا ہوتا تھا بلکہ لکڑی کی پیٹی ہوتی تھی جس میں چھوٹی موٹی گھریلو استعمال کی اشیاءہوتی تھیں جو دُکان دُکان وہ بیچتا تھا اور میری گلی کے نکڑ پر موجود پرچون فروش اُس کا پکا گاہک تھا۔ یوں کم از کم میری ڈاک میں کبھی دیری ہوئی نہ غائب ہوئی۔
ایک بار کیا ہوا کہ دو تین مہینے گزر گئے اور میری ایک ڈاک بھی نہ آئی ۔ مجھے گمان ہوا کہ ریاض نہیں رہا۔ مَیں نے گلی کے نکڑ پر موجود دُکان دار سے ریاض کا فون نمبر لیا۔ اندازہ کیجیے کہ وہ تین چار سال مجھے ڈاک پہنچاتا رہا اور میرے پاس اُس کا فون نمبر نہیں تھا۔ اب ایسے آدمی کو دلچسپ کہانی خاک ملے گی؟ ویسے یہ لفظ دلچسپ بھی کیا دلچسپ ہے کہ کس کو کس میں دلچسپی ہے اور کس میں نہیں، نرا رولا ہے مگر میرا رولا تو یہ تھا کہ ریاض تبدیل ہو گیا ۔ جی ہاں ، ریاض تبدیل ہو گیا جبھی ڈاک نہیں مل رہی تھی اور فون پر تصدیق بھی ہو گئی۔ ریاض نے پہلے اپنی کارکردگی سے آگاہ کیا ، پھر استفسار کیا کہ اتنے برسوں میں کبھی کوئی تنگی تکلیف ہوئی؟ مَیں نے کھل کر تعریف کی تو وہ بولا کہ وہ اسی علاقے میں خوش تھا، سیل مینی سے اضافی آمدنی بھی ہوتی تھی، اب دوبارہ دُکانیں پکی کرنے کے لیے محنت کر رہا ہے البتہ نوکری پر کام کم ہے اور آرام زیادہ ہے اور یہ بھی بتایا کہ اُس کے خلاف ایک سرکاری سکول کی اُستانی نے شکایت کی تھی کہ بچوں سے سرٹیفکیٹ دینے کے لیے مٹھائی کے پیسے مانگتا ہے۔ اُسی نے مجھے نئے ڈاک بابو سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ بھی کی تھی کہ کبھی اُس پر پیسوں کے حوالے سے اعتبار نہیں کرنا، وہ جہاں بھی جاتا ہے، قرض دینے والے پیچھے چھوڑ آتا ہے۔
ریاض کے دیے موبائل نمبر پر رابطہ کیا اور دو تین دن میں وحید سے ملاقات ہو گئی اور یوں رسائل کا سلسلہ بھی بحال ہو گیا لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ ہر ڈاک کے لیے اُسے بیسیوں فون کرنا پڑتے۔ کتاب بھیجنے والے کو کہنا پڑتا کہ بھیج چکو تو آگاہ ضرور کرنا تاکہ ڈاک بابو سے پوچھ تاچھ کی جا سکے۔ کبھی میں وحید کو فون کرتا، کبھی اس سے اوپر بیٹھے ایک آدمی سے کال ملاتا اور کبھی ڈاک خانے کے منتظم اعلیٰ سے بات کرتا لیکن ڈاک تب ملتی جب وحید کا جی چاہتا سو مَیں تھک ہار کر اُسی سے رابطہ بہتر بنانے کی کوشش کرنے لگا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ اس کے پاس ہر بار ایک لاجواب کرنے والا بہانہ تیار ہوتا تھا۔
بچوں کی رول نمبر سلپس آئی ہوئی ہیں، بہت ضروری ہوتی ہیں، جلدی پہنچانا پڑتی ہیں۔
مَیں نے بتایا ، بھائی میری ڈاک بھی ضروری ہوتی ہے، کسی نے رقم خرچ کر کے بھیجی ہوتی ہے، تم جو رسالے اور کتابیں پہنچاتے ہو، مَیں انہی پر کچھ نہ کچھ لکھتا ہوں اور پیسے کماتا ہوں۔
”او اچھا جی ۔ یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی۔ اب ایسا نہیں ہوگا۔“ یہ بات وہ ہزار بار کہہ چکا تھا اور مَیں ہر بار نہ چاہتے ہوئے بھی مان لیتا کہ واقعی ایسا نہیں ہوگا۔ پھر خود کو تسلی دیتا کہ چلو کوئی بات نہیں، دیر سے سہی ، پہنچا دے گا اور وہ پہنچا بھی دیتا لیکن بے چینی کبھی بڑھ جاتی اور کبھی غصے میں بدل جاتی اور کبھی مَیں بے بسی کا کمبل اوڑھ لیتا۔ وہ دنیا میں مجھ سے بہت بہت پہلے آیا ہو گا مگر مَیں اُسے اس قدر سخت باتیں بھی کہہ جاتا کہ کوئی اور ہوتا تو فون میں سے نکل کر مجھے تھپڑ رسید کرتا لیکن اُس کی آواز میں کبھی ترشی محسوس نہ ہوئی، لجاجت ہی لجاجت ہوتی تھی۔
وہ جی آئندہ نہیں ہوگا۔ بس جی پھنسا ہوا تھا۔ رات دس بجے تک ڈاک بانٹتا رہا۔ کل آ جاﺅں گا۔ کتاب تھیلے میں ڈال لی ہے۔ مَیں پرسوں کام سے واپس آﺅں گا تو کتاب گھر پڑی ہوگی۔ تھوڑا صبر کر لوں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ، لیکن کچھ ٹھیک نہ ہوا۔
مجھے اکثر ہنسی آتی کہ یہ تو میرے صحافی ہونے کا بھی ذرا خیال نہیں کرتا ۔ لیکن میرا یہ خیال خام تھا شاید ۔ اُس کے دبے دبے لہجے کا سبب یہی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا۔ کیا معلوم کہ کیوں وہ دن میں تین تین فون کرنے پر بھی جھنجھلاہٹ ظاہر نہیں کرتا تھا؟ اُس کی باتوں سے کبھی کبھی یہ معلوم ضرور پڑتا کہ وہ جانتا تھا اگر مَیں اُس کی شکایت جی پی او میں کروں تو اُسے ٹھیک ٹھاک پریشانی ہوگی۔ مجھے کئی دوستوں نے مشورہ بھی دیا مگر مَیں ہر بار ٹال جاتا کہ کوئی بات نہیں۔ سر جی سر جی کرتا ہے۔ اب میری ڈاک ایسی بھی ضروری نہیں کہ ہفتے بھر کی تاخیر سے کوئی آسماں ٹوٹ پڑے۔ آ ہی جائے گی اور آ بھی جاتی۔
جب وحید کو آتے جاتے کوئی تین مہینے ہوئے تو ایک روز اُس نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی کہ ڈاک آئی ہوئی ہے اور ایک کام بھی ہے ۔ میرے ذہن میں فوراً ریاض کی تنبیہ آئی کہ بچ کے رہنا ۔۔۔ اور اپنے کو تیار کر لیا کہ اگر پیسے مانگے تو کتنے دینے ہیں اور ہوا بھی اسی طرح کہ اُس نے پانچ سو ادھار مانگا ، مَیںنے دو سو میں پکا ٹرخا دیا۔ ابا کہتے تھے اُدھار مانگنے والے کو اُتنا ہی دینا چاہئے جتنا واپس نہ ملنے پر زیادہ تکلیف نہ ہو اور آدمی ملتا بھی رہے اگرچہ اُس دن کے بعد جب کبھی وہ ڈاک لے کر آیا اور میرے متعلق پوچھا تو گھر والوں نے ایک ہی جواب دیا کہ گھر پر نہیں۔
ایک دن کیا ہوا کہ میرے گھر والے ایک عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے اور مَیں دفتر جانے کی تیاری میں کھانا کھا کر چائے بنا رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ کواڑ کھولے تو اُسے سامنے پایا ۔ ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے اُس کے سیاہی مائل چہرے پر صاف صاف نظر آ رہے تھے۔ ناک بھی گیلی گیلی سی تھی جسے اُس نے میرے سامنے کف سے پونچھا اور وہی ہاتھ پھر مجھ سے ملایا، مسکرایا اور کتابیں پکڑا کر واپس جانے کو مڑا۔ مجھے جانے کیا ہوا کہ اُسے پیچھے سے آواز دے دی۔ کہتے ہیں کہ پیچھے سے آواز نہیں دینی چاہئے اور پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی نہیں چاہئے ورنہ آدمی پتھر کا ہو جاتا ہے مگر مجھے ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ کیا معلوم پیچھے کھڑا آدمی ہمارے نہ مڑنے سے پتھر ہو جائے لیکن وہ ایسی سوچوں سے بے پروا مڑا اور میری چائے کی دعوت دو بار انکار کرنے کے بعد قبول کر لی۔ مَیں نے اُسے بیٹھک میں بٹھایا ، خود جلدی جلدی کیتلی میں تھوڑا اور پانی ڈال کر چائے بنا لایا۔ اُس نے شرمندہ شرمندہ سی مسکراہٹ کے ساتھ چائے کے تین چار گھونٹ بھرنے کے بعد رک رک کر کہا، ”مجھے آپ سے ایک کم تھا۔ اچھا ہوا ملاقات ہو گئی۔ چائے کا تکلف کیتا سر جی۔“
اُس کے منہ سے لفظ کام سن کر کپ میری انگلیوں میں ذرا سا کپکپایا مگر میں نے خوش مزاجی برقرار رکھی ، ”حکم کریں۔“
”سر جی دو بچے نیں۔ دونوں معذور۔ اے سمجھو پہلا منڈا جب آٹھ سال کا ہویا، کمر باہر نکل آئی، ٹانگیں دوہری ہو گئیں، سمجھو وی بن گئیں۔ بڑے علاج کرائے ۔ کچھ نئیں ہویا۔ باپ نکو نک مقروض ۔“ اور وہ کہیں کھو گیا۔ مَیں بھی چند لمحے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ پھر اُسے یاد دلایا کہ چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے تو اُس نے پرانے زمانے کی بی بیوں ایسی آہ بھری۔۔۔ہائے۔۔
”دوسرا لڑکا ٹھیک ہے؟ “
”نئیں جی۔ اُس کا بھی یہی حال ۔ آٹھ سال کا ہو کر پہلے ورگا ہو گیا۔ اے سمجھو ڈاکٹروں کو بھی سمجھ نئیں آئی۔بڑا علاج کرایا۔ ہن قرضے ای قرضے۔“
”اللہ بہتر کرے گا۔“
”ٹٹی پیشاب بھی آپ نئیں کر سکتے۔ سمجھو ہر کم خود کرنا پڑتا ہے۔ منہ چ نوالے پانے پڑتے ہیں۔ “
”ہوں۔۔۔“
” ماں پیو زندہ نیں۔ کردے نیں۔ مر جان گے تے فیر؟“
”اللہ مالک۔۔“
”سر جی تسی رائٹر او۔ کچھ لکھو۔ حکومت دی توجہ دلاﺅ۔ مالی امداد نئیں چاہئے۔بس علاج کرا دے۔“
اُس کی رائٹر والی بات سن کر زہر خند مسکراہٹ آتے آتے رہ گئی، مسکین صورت بنائے رکھی اور اُس کی باتیں سنتا رہا اگرچہ کچھ بھی سن نہیں پا رہا تھا، دماغ نے کام بند کر دیا تھا اور مَیںاسی بند دماغ میں کھو گیا تھا کہ اُس نے کیا توقع کی ہے اور مَیں۔۔۔ مَیںجو اُس کی نگاہوں میں ایک رائٹر ہوں، کروں تو کیا کروں؟ میرے بس میں ہے کیا؟ پیشہ وارانہ لحاظ سے ایک خبر؟ اور پاگل پن کی دہلیز پر ایک افسانہ ؟ اور مَیں بے بسی کی گہری کھائی میں گر گیا جہاں سے مجھے اُمید مانگتی آواز نے نکالا ۔
”اچھا سر جی۔ چائے دا تکلف کیتا۔ کچھ لکھنا ضرور۔“
اُسے دروازے تک چھوڑنے جاتے جاتے مَیں کہانی کے بھنور میں گھر چکاتھا۔ خیال آیا کہ کہانی یوں شروع کروں کہ قصہ کہتے کہتے سبھی کو لپیٹ میں لیتا جاﺅں جو معذور بچوں کو بچہ نہیں سمجھتے ، جو توانا بچوں کو بھی نہیں بخشتے، لولا لنگڑا بنا دیتے ہیں، ٹھٹھا اڑاتے ہیں کہ وہ دیکھو ٹنڈا ، وہ دیکھو لنگڑا، اور وہ حرام زادے یہ نہیں کہتے کہ وہ دیکھو ساجد ، وہ دیکھو ماجد، اور تو اور اپنے بچوں سے بھی لاڈی لاڈی کے نام پر یوں کھیلتے ہیں جیسے وہ جیتے جاگتے انسان نہیں بلکہ کھلونے ہیں۔ اور وہ خبیث جو عذاب کی طرح نازل نہیں ہوئے، نہیں جان پاتے ، جان جائیں تو سمجھ نہیں پاتے کہ بچے صرف بچے ہوتے ہیں جنہیں وُہ روشن راہوں میں مار دیتے ہیں۔ مَیں کیا کیا کہوں کہ سرِعام دولے شاہ کے چوہے بنائے جاتے ہیں۔ ہوسناکی کا شکار کرکے عمر بھر کا روگی بنائے جاتے ہیں، انتقام کے بیج بوئے جاتے ہیں جو تنا ور ہو کر نفریلے پھل پھینکتے ہیں، جو پھر سے معصوم آنکھوں سے شرارت چھین کر آنسو بھر دیتے ہیں، ہاتھوں میں چھالے ڈال دیتے ہیں اور پیروں کی ایڑیاں ننگی تپتی زمین پر جھلسنے، رگڑنے، کٹنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور پھر اخلاقیات کے بھاشن بھی دیے جاتے ہیں۔
مجھے ہنسی آئی کہ اِس عالمِ وحشت میں وحید کے بچوں کے ساتھ بھلا کیا ہو سکتا ہے؟ اگر وہ زندہ رہے اور چل پھر پائے تو کسی چوک میں آوارہ مزاج ماں باپ کے لڑکوں کے روڑے کھائیں گے، گالیاں بکیں گے، ٹھڈے کھائیں گے اور یونہی رُلتے رُلتے مارے جائیں گے۔ آہ وہ مارے جائیں گے جنہیں سانس ملی، زندگی نہیں ملی۔ اُس نے جانے کیا سوچ کر کہا تھا کہ مَیںرائٹر ہوں، میں کچھ لکھوں، حکومت کی توجہ دلاﺅں۔ کس حکومت کی ؟ جو کالی طاقتوں کے ایک ٹولے کا نام ہے جو نام اور چہرے بدلتا رہتا ہے مگر کرتوت کبھی نہیں بدلے۔ اسی ٹولے نے کنویں کا مینڈک بنا دیا ہے، اُس کنویں کا مینڈک جسے کچھ لوگ پاگل خانہ بھی کہتے ہیں ، جہاں اچھے بھلے لوگ پاگل بنائے جاتے ہیں تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے، جہاں جنونیوں کو ہار پہنائے جاتے ہیں تاکہ پاگل پن بڑھتا رہے اور لوگ اسی پاگل پن کے دائرے میں گھومتے رہیں اور وہ ٹولا اِن پاگلوں سے پرے، بہت پرے ، تماشا دیکھتا رہے، بھلے اوپر سے لعن طعن کرتا رہے۔
اور اُس نے جانے کیا سوچ کر کہا تھا کہ رائٹر ہو، کچھ لکھو۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ مَیں ایک عرصے سے کچھ بھی نہیں لکھ پایا۔ خیالات کے ریلے آتے ہیں ، بہہ بہا جاتے ہیں اور مَیں کڑھتا رہتا ہوں۔ تصویریں ابھرتی ہیں، ڈوب جاتی ہیں اور مَیں کڑھتا رہتا ہوں۔ اُسے کیا معلوم کہ اک چاند چہرہ نے میری آنکھیں چندھیا دی ہیں۔ وہ نہیں جانتا کہ مَیں وہیں کھڑا ہوں جہاں وہ چھوڑ گئی تھی اور یہی سمجھ نہیں پا رہا کہ قصور کس کا تھا؟ وہ کیا جانے کہ مَیں نے اُسے کتنی آوازیں دیں، اتنی آوازیں دیں کہ میری اپنی آواز کہیں گم ہو گئی۔ مَیں نے اپنی آواز کا صدقہ بھی مانگا مگر وہ چاند چہرہ کہ سورج سوچ کہ جس کے ہوتے میرے من میں نور کا دریا بہتا تھا، چاندنی لیے چلی گئی، اندھیرا چھوڑ گئی۔
مَیں کیا لکھوں کہ میں اُسی اندھیرے میں سرگرداں ہوں اور اُسی چاندنی کی چاہ میں چکرا چکا ہوں۔ میں کسی کو کیا راہ دکھاﺅں؟ کسی کو کیا متوجہ کروں؟ میرے ڈاک بابو میں تمہارے لیے ، تمہارے بچوں کے لیے کیا لکھوں؟
یہ سوال میں نے اتنی بار خود سے پوچھا کہ میں بے کل ہو گیا۔بے کلی کو وحید کے فون مہمیز کرتے رہتے تھے۔ مجھے وحید کو شکریہ کہنا چاہئے تھا کہ مجھے اُس نے میرے مہجور کوزوں کی جانب واپسی کی راہ دکھائی۔ میں بھی کیا خود غرض آدمی ہوں اور کون ہے جو خود غرض نہیں؟ جو نہیں ہے وہ نہیں رہتا، اُسے رہنا چاہئے، تاکہ یہ جگہ رہنے لائق رہے۔ لیکن کون پروا کرتا ہے؟ کوئی تو کرتا ہو گا البتہ میں نے اول اول پروا نہیں کی مگر پھر کچھ ایسا ہوا کہ میں بے خود ہو گیا اور بے خودی سے اچھا کیا ہو سکتا ہے اگر مَیں واقعی رائٹر ہوں اگرچہ میں نے کبھی اس کا دعویٰ نہیں کیا ۔ یوں تو میں بھی کیا خاک رائٹر ہوں جو اپنے غم سے نہیں اُبھر سکتا۔ اُبھروں بھی تو کہاں جاﺅں جہاں غم نہ ہو؟ اس جہاں میں تو یہ ممکن نہیں کم از کم اور کوئی اور جہاں، کیا معلوم ، کیا ہو؟
معلوم اور نامعلوم کے درمیان جھولتے جھولتے ایک روز مَیں نے جی کڑا کیا اور کچھ رفقائے کار سے بات کی ۔ سبھی نے اظہارِ افسوس کیا مگر بہتری کا کوئی سرا ہاتھ نہ آیا تو میں نے ایک خاتون رپورٹر سے بات کی جو اچھی رپورٹ کی تلاش میں کیمرہ مین لے کر بتائے پتے پر پہنچ گئی اور سچی بات یہ ہے کہ اُس نے ٹی وی پر رپورٹ واقعی بڑے دردناک انداز میں پیش کی۔ اُس نے اربابِ اختیار سے بھی رابطہ کیا جنہوں نے ہرممکن امداد کی یقین دہانی کرائی ۔ وحید کا مجھے فون بھی آیا اور اس کی آواز میں لجاجت کے بجائے خوشی تھی جس پر مجھے کچھ اطمینان ہوا اگرچہ مجھے خدشہ بھی تھا کہ جانے امداد ہو یا نہ ہو۔ عمر گزری ہے وعدے اور دعوے سنتے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ امدادی چیک دیے گئے اور کیش نہ ہوئے اور ان میں سرکاری بھی شامل تھے اور غیر سرکاری بھی۔ کچھ روز گزرے تو رابطہ کیا کہ عملی طور پر بھی کچھ ہوا ؟ اور اُس نے بتایا، ”او جی علاج شروع ہو گیا اے۔ دعا کرو۔ “ اور مَیںنے دعا دی اور تسلی دی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
مَیںنے خود کو بھی سمجھایا اور ایڑیاں رگڑنے لگا کہ چشمہ اُبل پڑے ، حیات بخش پانی ملے مگر وہ اک غم ۔۔۔ طاقت بننے کے بجائے کمزوری بن گیا اور میں اُس میں سے نت نئے افسانے نکالنے میں ناکام رہا گو میں نے جی جان سے چاہا۔ یوں بھی اُس نے بڑے مان سے کہا تھا ، ”سر جی ، تسی رائٹر او ، کچھ لکھو۔“ میں کچھ لکھنے کا آغاز کرتا تو وہ آ جاتی اور وحید پیچھے رہ جاتا۔ اُس کے دو بچے، جو اول اول اُس نے اپنے بھائی کے بتائے تھے، وہ بھی پیچھے رہ جاتے اور میں ڈوب جاتا۔ میں اُسے کبھی کہتا تھا کہ میں ہر کردار میں سے کہانی نکال سکتا ہوں اور اب ۔۔۔ وحید اور اس کے بچے میری راہ تک رہے تھے اور مَیں اُن کے لیے دعا کر کے خود کو تسلی دے رہا تھا۔
کوئی کیا جانے کہ بال بچے دار آدمی کا کسی گُل رُخ کو اپنے میں حلول کر لینا کیا غضب ڈھاتا ہے۔ وحید اِسے حماقت ہی سمجھے گا لیکن اُسے کیا معلوم کہ شادی کے بعد عشق ہی دراصل معاشقہ ہوتا ہے جو محض اک بدن کا حصول نہیں ہوتا بلکہ اپنے خلا پُر کرنے کی تمنا دوڑائے پھرتی ہے یہاں وہاں لیکن مَیں اُس کے خلا ، وحید کے خلا ، اُس کے بچوں کے خلا، تمام بچوں کی زندگیوں میں پیدا کیے گئے خلا پُر کرنا چاہتا ہوں اور خود کو بے بس بھی پاتا ہوں۔
شاید انہی خلاﺅں سے میرے دماغ میں خلل آ گیا تھا ورنہ وہ تو بار بار سکرین صاف کرتی رہی۔ دور رہو مجھ سے ۔ دوری ہی بہتر ہے۔ مجھ سے دوری پر تم پھلتے پھولتے ہو۔ میں کوئی اچھی ساتھی نہیں۔ عارضی سہارے نہ ڈھونڈو۔ ہر آدمی اپنی ذات میں تنہا ہے۔ یوں بھی مجھے تم سے کوئی لگاﺅ نہیں تو جاﺅ اپنا راستہ ناپو ’بلا۔ بلا۔ بلا۔‘ مگر میرے خلا اور خلل ۔۔۔ وہ مجھے بار بار بتاتی رہی کہ میرے دماغ میں کیڑے ہیں اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ وہ دنیا جہان کی ہر خرابی مجھ میں نکالنے لگی لیکن کون کمبخت اُس ہستی کے قریب نہیں رہنا چاہتا جس کی قربت لاشعوری طور پر خوشی کا احساس جگائے رکھے اور غم دے تو یوں دے کہ غمِ دنیا بھلا دے۔
اب مَیں جو جی چاہے کہوں مگر قصورا میرا ہے تو سہی کہ اُس نے بھی رائٹر جان کر انگلی پکڑائی اور میں پوری ہتھیانے کے چکر میں یوں پڑ گیا کہ مجھے چکر آنے لگے۔ میری قاری، میری پیاری میں ایک کمال کی کلاکار چھپی ہوئی تھی اور چھپایا بھی اُس نے خود تھا، بہت اُکسایا مگر وہ ظاہر کرنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ مَیں نے کامل یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ جب بولتی ہے تو اُس کے جملے اس قدر تخلیقی، اس قدر کٹیلے ہوتے ہیں کہ میں نشانے پر ہونے کے باوجود عش عش کر اٹھتا ہوں اور اگر وہ لکھے تو کیا قیامت ہو۔ ہائے ہائے۔ اور خیالات، ہنگامہ خیز خیالات، اگر ہیجانی کیفیت سے نکل کر بولے تو دانش کے موتی بکھیرتی ہے اور شعر جو کبھی کبھار کہتی ہے، چھوٹی بحر میں بڑی کیفیت کا یوں اظہار کرتی ہے کہ سبحان اللہ مگر اُس نے چاند سا چہرہ میرے قریب لاتے ہوئے ایک ادا سے کہا تھا۔
”میں رائٹر نہیں بننا چاہتی، رائٹر کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔“
اِس جملے نے اور اُس ادا نے کبھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ میری ذات کو مجھ پر یوں عیاں کرتی کہ میں حیران ہو جاتا اور خود سے پوچھتا کہ وہ کیسے مجھے اتنا جانتی ہے کہ میں خود بھی نہیں جانتا؟ اور جب میں نے یہی بات اُس سے پوچھی تھی تو اُس کے چہرے پر ایک مسکان پھیلی تھی مگر آنکھوں میں اُداسی چھپ نہیں پائی تھی۔ وہ چند ساعتیں دیکھتی رہی، خاموشی سے دیکھتی رہی اور شانِ بے نیازی سے منہ موڑتے ہوئے بولی تھی۔
”کیونکہ میں سوچتی بہت ہوں۔“
معلوم نہیں کیا کیا سوچتی تھی مگر میں سوچتا ہوں کہ جو بننا چاہتی تھی وہ بن نہ پائی اور یوں بھرے پرے گھونسلے میں تنہا پرندہ پھڑپھڑاتا رہا جبھی وہ جانے کیا کیا سوچتی رہی کہ ایک بار اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ میں اُسے صرف ایک دلچسپ کردار سمجھتا ہوں اور جس دن اُس نے میری ذات میں کھلنے والی کھڑکیاں مجھ پر کھولنا بند کر دیں، میری اُس میں دلچسپی تمام ہو جائے گی اور میں اپنی راہ بدل لوں گا مگر مَیں تو وہیں کھڑا ہوں، اُسی راہ پر، اُسی چاہ میں مگر وہ ۔۔۔ میں جانتا تھا کہ میں خطرناک راستے پر ہوں مگر میں چلتا رہا۔ وہ جتنا پرے کرتی ، میرے جی کے اور قریب ہو جاتی اور یقینا یہ میری فنتاسی کا کرشمہ ہے اور یقینا وہ بھی کرشماتی ، جو بھی ہو، وہ پہلے میری تھی نہ بعد میں میری ہوئی، بس مَیں یہ تسلیم نہیں کر پا رہا تھا مگر میں بھی کیا کرتا کہ وہ اتنی پیاری ، اتنی پیاری ۔۔۔ لیکن مجھے اُسے کوئی دوش نہ دینا چاہئے مگر میں دیتا ہوں اور دیتا رہوں گا اور خود کو کوستا بھی رہوں گا جیسے میں اب وحید کے بچوں کے بارے میں پچھتاتا ہوں۔
مجھے بارہا خیال آیا کہ خبر لگوا کر ، چلوا کر مَیں نے اپنا حصہ ڈال دیا مگر مجھے یقین کبھی نہ آیا کہ یہی میرا حصہ تھا سو مجھے اُشکل ہوتی رہتی کہ کچھ اور کر سکوں، کچھ لکھ سکوں اور سچی بات یہ ہے کہ میں نے واقعی لکھنا چاہا مگر لکھ نہ سکا کہ وحید کچھ عرصے کے لیے یوں غائب ہو گیا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ وہ اپنے آپ میں بھی نہیں تھا۔ وہ مارا مارا پھر رہا تھا کہ بچوں کی بیماری کو پراُسرار اور لاعلاج قرار دے دیا گیاتھا اور وہ دوبارہ نکونک قرض میں ڈوب چکا تھا مگر وہ مجھے ملتا نہیں تھا اور کہتا بھی نہیں تھا۔۔۔ او جی تسی رائٹر او ، کچھ لکھو، حکومت دی توجہ دلاﺅ۔
مَیں نے شرم کے مارے ایک دو اور لوگوں سے رابطے کیے کہ اس طرح کی صورت حال میں کیا ہو سکتا ہے؟ کوئی ایسا ادارہ جو بچوں کی کُل وقتی دیکھ بھال کی ذمہ داری لے لے؟ ایک سرکاری ادارے کی خبر ملی تو میں وہاں جا پہنچا مگر وہ صرف لاوارث بچوں کو لیتے ہیں۔ دوسرے ادارے کا معلوم ہوا مگر وہاں بااثر لوگوں کے بچے ہی جا سکتے ہیں اور زیادہ امیر لوگ تو اپنے بچوں کو دوسرے دیسوں میں لے جاتے ہیں۔ پریشان ہوا کہ ڈاک بابو کے بچوں کے لیے بھی کوئی اطمینان بخش ادارہ ہونا چاہئے، بھلے نام کو ہو، کچھ بھرم رہ جائے مگر کسے پروا ہے بھرم کی ، جب دھرم کے نام پر لوگ لٹو بن چکے ہوں، لٹ رہے ہوں ، لوٹ رہے ہوں تو کیا بھرم ، کیا دھرم ، جب منشا ہی لوٹ مار ہو لیکن مَیں بھرم قائم رکھنے کے لیے ایک دن ڈاک خانے پہنچ گیا۔
وہ کام پر ابھی آیا نہیں تھا سو مَیں ڈاک خانے کی بیرونی دیوار کے ساتھ بنے چائے کے کھوکھے پر بیٹھ کر سُرکیاں لینے لگا۔ سڑک پر ٹریفک تھا کہ قیامت کا منظر۔۔۔ کار سوار اپنی گاڑی کو چب پڑنے کے خوف سے کچھ محتاط تھے مگر موٹرسائیکل سوار لڑکے توبہ اور ان سے بھی بھیانک ڈرائیونگ کرتے رکشہ ڈرائیور۔۔۔ حیرانی ہوئی کہ انہیں زندگی سے پیار نہیں یا پاگل پن کی حد تک خود پر اعتماد ہے؟ جو بھی ہو ، میری نظر متحرک مشینوں میں جامد نو دس سال کے بچے پر ٹک گئی جو سڑک کے ایک کنارے سائیکل روکے راستہ ملنے کا منتظر تھا مگر ٹریفک تھا کہ ۔۔۔ وہ آٹھ سے دس منٹ وہیں کھڑا رہا کہ کوئی راستہ دے تو وہ دوسرے کنارے پہنچ کر اپنی گلی کو مڑ جائے اور نہ جانے وہ کتنی دیر وہیں کھڑا رہتا کہ میرا ڈاک بابو کہیں سے ٹپک پڑا اور دایاں بازو پھیلائے بچے کے لیے راستہ بنانے لگا۔ اُسے کچھ گالیاں بھی پڑیں لیکن اُس نے سڑک پار کرا کے چھوڑی اور خود بچتا بچاتا ڈاک خانے کے دروازے تک پہنچ گیااور تبھی میں نے پیچھے سے آواز دی۔ اُس نے مڑ کر دیکھا اور کان کے پیچھے کھجلی کرتا، مسکراتا ہوا چلا آیا اور آتے ہی ڈاک نہ پہنچانے کا عذر بیان کرنے لگا مگر میں نے روک دیا اور پوچھا۔
” بچے کیسے ہیں؟ “
”وہ جی آپ کا ایک جاننے والا علاج کرا رہیا اے۔ باقی ٹھیک اے ، بس بچوں کی ماں اجکل بیمار اے۔ بڑی پریشانی اے۔ “
”سب ٹھیک ہو جائے گا۔ فکر نہ کرو۔ “ اور اُس کے لیے چائے منگوائی جو پیتے ہوئے اُس نے فکرمندی ظاہر کی کہ بچوں کی ماں کو کچھ ہو گیا تو وہ اکیلا کیسے سنبھال پائے گا؟ وہ نوکری کرے گا یا گھر پر رہے گا؟ وہ ابھی سے پوچھتی ہے کہ ہمارے بعد ہمارے بچوں کا کیا ہو گا؟ مَیں خاموشی سے سنتا رہا کہ کیسے اُس کی بیوی کھلانے سے نہلانے تک سارے کام اکیلے کرتی ہے اور جب وہ سو رہے ہوتے ہیں تو کیسے سرہانے بیٹھی موتی رولتی ہے، نصیب کوستی ہے۔ کیا یہی تقدیر ہے؟ اور اگریہی تقدیر ہے تو کیسی تقدیر ہے؟ کہیں یہ آزمائش تو نہیں؟ میرے ابا کہتے تھے کہ یہ اُس خاندان کی آزمائش نہیں ہوتی بلکہ یہ پورے معاشرے کا امتحان ہوتا ہے اور ہم اِس میں فیل ہو چکے ہیں لیکن میں اُسے فیل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا اگرچہ میں نے دیکھا کہ لوگ تندرست بچے کو بھی راستہ نہیں دے رہے تھے لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ کیا کروں؟ سو میں نے اُس کی ہمت بندھائی اور ڈاک لے کر واپس آ گیا اور اِک چاند چہرہ کے ہجر میں کھو گیا اور یوں کھو گیا کہ ایک روز میری بیوی تانیہ میز پر کھانا لگا رہی تھی اور میں نے کہہ دیا کہ بانو، پہلے پانی دے دو۔۔۔ اور وہ میکے چلی گئی۔۔۔
اور وہ چلی گئی۔ اب میں تھا، میرے دکھ اور وحید اور اُس کے بچوں کے دکھ مگر ایک اکیلا کیا کر سکتا ہے سو مَیں نے وہی کیا جو میں سب سے اچھا کر سکتا ہوں اور ’درداں دی ماری دِلڑی‘ کی کہانی لکھ دی کہ وحید کی بیوی ایک رات سوئی تو دوبارہ نہ اٹھی اور چند مہینوں میں پہلا بچہ ماں ماں کرتا کہیں دور، بہت دور چلا گیا اور دوسرا بھی دروازے کی طرف بڑھ رہا ہے۔