سائے

یہ تحریر 868 مرتبہ دیکھی گئی

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی کو اس سکول کا نام یاد نہ ہو جس میں برسوں پڑھتا رہا ہو؟

یہ سننے میں عجیب ہے مگر سچ یہی ہے کہ شاہد کو اُس سکول کا نام یاد نہیں جس میں نویں دسویں جماعت کے لیے وہ زیرتعلیم رہا ۔ یہ بتایا نہیں جا سکتا کہ ایسا کیوں ہے مگر یہ سمجھایا ضرور جا سکتا ہے اور اس کے لیے بات پوری سننی پڑے گی ۔

اس سے بھی عجیب یہ ہے کہ شاہد کو اس سکول کا بھی نام یاد نہیں جہاں وہ پانچویں تا آٹھویں جماعت رہا مگر یہ اُسے یاد ہے کہ نویں دسویں والا سکول پیلا تھا اور پانچویں تا آٹھویں والا بھی پیلا تھا ۔ عمارت پہلے سکول کی بڑی تھی اور دوسرے کی اس سے بھی بڑی، کھیل کے میدان تھے، پیڑ پودے تھے البتہ گھاس دونوں میں نہ تھی ۔ پہلا ایک بدمعاش سے منسوب علاقے میں قائم تھا ۔ داخلی دروازے کے سامنے لوہے کی الماریاں بنتی تھیں ، سارا دن ٹھک ٹھک ، ٹُک ٹُک ۔ ۔ ۔

اسی سکول کی بغل میں موجود مکان میں ایک بانسری نواز مقیم تھا جو دن بھر بیٹھک میں بیٹھا رہتا اور کھلے دروازے سے باہر آتے سُر جھانکنے پر اکساتے رہتے ۔ جب شاہد کی بیٹھک میں اٹھک بیٹھک بہت بڑھ گئی تو اُسے معلوم ہوا کہ نیفے بنسی نے سُر کی تلاش میں کیا کیا تیاگا تھا اور یہی فن کی طاقت ہے اور یہی جنون ہے جو فنکار بنا دیتا ہے ۔

نیفا بنسی تیرہ چودہ سال کا تھا جب اماں ابا اس کے شوق سے تنگ پڑ گئے، انھوں نے بہت سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا ۔ آخر ایک دن ابا نے صاف صاف کہہ دیا ۔ ’’نیفے کنجر خانہ چھڈ دے یا گھر چھڈ دے ۔ ‘‘

نیفے بنسی نے بانسری ہاتھ میں پکڑی اور گھر چھوڑ دیا ۔ وہ سر چھپائی اور سُر سچائی کی تلاش میں در در بھٹکتا رہا اور جب اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا تو آبائی گھر آیا، بیوی بچے بھی لایا اور اُس نے دیکھا کہ باپ بسترِ مرگ پر پڑا جیسے اُسی کی راہ تک رہا تھا، سینے سے لگتے ہی آنسو نکلے اور دم بھی نکل گیا ۔

شاہد نے جب اسے دیکھا تو وہ موٹا کالا سنڈا ہو چکا تھا مگر اس کی آواز بہت کومل، معلوم نہ ہوتا کہ عظیم الجثہ وجود سے ایسی باریک سی ، دھیمی سی، پیاری سی آواز آ رہی ہے ۔ فن واقعی پتھر کو پانی کر دیتا ہے ۔ ایک بار کسی نے اُسے منع کیا کہ لڑکوں کو یہاں نہ بیٹھنے دیا کریں مگر اُس نے مسکرا کر کہا کہ یہ سکول سے بھاگ کر خراب ہونے کے بجائے یہاں سر سنگیت سے جی بہلا لیں گے تو کیا برا ہے ؟

وہ اقلیتی برادری کا رکن تھا مگر شاہد وہاں چائے بھی پیتا اور بسکٹ بھی کھاتا، نہ نیفے کے برتن پلید ہوتے، نہ شاہد کا کچھ بگڑتا البتہ اس سلسلے میں ایک لطیفہ خوب ہوا ۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک بار شاہد اپنے ایک دوست کو پہلی بار اس کی بیٹھک میں لے گیا ۔ نیفے نے شیشے کے گلاس میں لسی پلائی اور ابھی گلاس واپس نہیں گئے تھے کہ دوست نے پوچھ لیا ۔

’’ہمارے ماسٹر جی نے بتایا تھا آپ عیسائی ہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘

اور سوال پورا ہونے سے پہلے نیفا بول پڑا ۔ ’’ہاں ۔ میں مسیحی ہوں ۔ ‘‘ اور قہقہہ لگاتے ہوئے بات مکمل کی، ’’بیٹا جی ! اب بتاءو، تم کلی کرو گے یا میں گلاس توڑوں ؟

شاہد نے ہنستے ہوئے لقمہ دیا ۔ ’’یہی کلی کر لے گا ۔ گلاس توڑنے کی کیا ضرورت ہے ۔ ‘‘

شاہد کی بات پر بیٹھک میں وہ قہقہے ہوئے کہ پسلیاں دکھنے لگیں ۔ مزاحیہ وہ اس قدر تھا کہ اپنی پکی رنگت پر بھی پھبتی کس لیتا اور شاہد کے سکول یونیفارم کو بھی نہ بخشتا اور تو اور وہ اس وکیل کے ٹھگنے قد پر بھی کچھ نہ کچھ شگفتہ سا کہہ دیتا جو ستار سیکھنے آتی تھی ۔ اکثر کہتا، ذرا دیکھ کے باجی ستار تھلے آ کے مر نہ جانا ۔ یہ بھی عجیب ہے کہ کسی کو وہ ستار سکھا رہا تھا تو کسی کو بنسی بجانا اور ایک بات وہ بار بار کہتا ۔ ’’ایک بات یاد رکھو، سُر وہیں سے آتا ہے جہاں سے سانس ۔ ۔ ۔ ‘‘

شاہد کو اِک بدمعاش سے منسوب علاقے کے سکول سے کچھ یاد رہا تو نیفا بنسی اور ۔ ۔ ۔ بانسری جو دوسرے سکول میں بھی ساتھ رہی جہاں پہلے کی طرح اساتذہ کبھی پورے نہیں ہوئے تھے ۔ یہاں سب سے متحرک پی ٹی ماسٹر تھے ۔ اُن کا رنگ گندمی، قد درمیانہ سا تھا، ہمیشہ کلین شیو نظر آئے، صاف شلوار قمیص پہنتے اور گلے میں مفلر بھی ہوتا، سردی ہو یا گرمی، چہرے پر مسکراہٹ بھی ہر وقت رہتی اور یہ مصنوعی معلوم نہیں دیتی تھی ۔ ان کی ناک طوطے سی تھی اور گلے کی ہڈی نوکیلی نظر آتی تھی اور آنکھیں کچھ اندر کو دھنسی ہوئیں مگر تیز، ان کی آواز کی طرح مگر آواز میں کبھی کبھی بلغم کی تلخی شامل ہو جاتی تھی اور تلخی آنکھوں میں بھی جگہ بنا لیتی تھی ۔ ان کی جیب میں ہر وقت کنگھی بھی ہوتی تھی جو وقتاً فوقتاً نکال کر بال سنوارتے اگرچہ آگے سے گنج نکلنی شروع ہو چکی تھی مگر عمر کے لحاظ سے یہ کچھ بھی نہیں تھی، اُن کا آدھا سر صاف ہو چکا ہونا چاہئے تھا مگر متحرک آدمی تھے اور خوش طبع بھی ،لیکن ایک بات اچھی نہیں تھی اور وہ یہ کہ اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔

یہ تو وہی جانتے ہوں گے کہ ان کے گھریلو اخراجات کیا تھے یا دوسری مصروفیات کیا تھیں مگر وہ تنخواہ میں سے کچھ رقم سکول کے لیے مختلف سامان پر خرچ کر دیتے، جیسے کبھی بلے لے آئے، کبھی گیند خرید لی، کبھی دستانے، کبھی دف، کبھی ڈرم، کبھی سٹک لے آتے ۔ سکول کی مرکزی عمارت کی دائیں طرف کھیل کا میدان تھا جہاں وہ کرسی رکھے کبھی دھوپ سینکتے اور کبھی سامان کو دیمک سے بچانے کی کوشش کرتے نظر آتے مگر دوسرے اساتذہ انھیں اسی نظر سے دیکھتے جیسے کسی پی ٹی ماسٹر کو دیکھنے کا رواج رہا یعنی قدرے بے کار آدمی مگر شاہد کے لیے وہی استاد تھے ۔

اس سکول کے تعلیمی نتاءج کبھی اچھے رہے ہوں شاید مگر ان دنوں شہرت اچھی نہ تھی جب شاہد کے ابا نے اسے داخل کرایا ۔ معلوم نہیں کہ وجہ کیا ہوئی لیکن گمان کیا جاتا ہے کہ وہ پرانے زمانے کے آدمی تھے اور ان کے خیال میں بچہ اپنی محنت سے پڑھتا ہے مگر انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ جس سکول میں وہ اپنے بچے کو داخل کرا رہے ہیں ، اس سکول میں پڑھانے والا کوئی نہیں ۔ سونے پر سوہاگہ کہ شاہد نے سائنس کے مضامین رکھ لیے جس کے لیے سکول میں ایک لیبارٹری بھی تھی جس میں ساز و سامان دھول کی موٹی تہوں سے ڈھکا ہوا تھا اور چھتوں سے جالے سروں تک لٹک رہے تھے اور یہ نظارہ شاہد کو صرف ایک بار دیکھنے کو ملا کیونکہ دوبارہ وہ دروازہ کھولا نہیں گیا البتہ اسے ایک سائنس ماسٹر ضرور ملا تھا جسے مہینوں اسی بات کا غصہ رہا کہ اس کا تبادلہ اس سکول میں کر دیا گیا تھا جو اس کے گھر سے بہت دور تھا لہٰذا وہ کمرہَ جماعت میں داخل ہوتے ہی منہ میں پان دباتا اور کرسی پر ڈھیر ہو جاتا ۔ تنبیہ تھی کہ جب تک وہ سامنے رہے ، آواز نہ آئے سو لڑکوں میں سے کئی اپنے استاد کے تتبع میں سو جاتے یا چپکے چپکے کھسک لیتے ۔

سکول کی ایک جانب کارپوریشن کا دفتر تھا اور دوسری طرف اکھاڑا ،جہاں کبھی شیر لاہور بننے والا پہلوان بھی کشتی لڑتا تھا، اکھاڑے کے ساتھ کچرا دان تھا جس پر رنگ پیلا تھا ۔ شہر میں تمام کچرا دانوں پر رنگ پیلا ہی ہوتا تھا اور شاہد کے سکول کا رنگ بھی پیلا ۔ ۔ ۔ سکول کے مرکزی دروازے کے ٹھیک سامنے سڑک پار اسلحہ فروشوں کی دُکانیں تھیں جہاں سے ہر دوسرے تیسرے دن گولیاں چلنے کی آوازیں آتی تھیں اور ان دُکانوں کے عقب میں ایک پارک تھا جہاں کبھی لڑکے چھٹی تک وقت کاٹا کرتے تھے اور کبھی یہاں سے دائیں جانب چل پڑتے ۔ پہلے مصری شاہ کا نالا آتا جس پر لوہے کی بڑی مارکیٹ ہے، اس سے آگے چلتے چلتے وہ اک موریہ پل پہنچ جاتے، پھر یکی دروازے پھل سبزیاں سونگھتے، اکبری میں نالے کے ساتھ باغیچے میں مور دیکھتے، لنڈا پھڑولتے، دہلی دروازے سے بازار میں گھس جاتے اور گھسنے سے پہلے پیسے ہوتے تو پٹھورے بھی کھا لیتے ورنہ مسجد وزیر خان سے منہ ہاتھ دھو کر ٹھنڈے صحن میں آرام کرکے آگے بڑھ جاتے، موتی بازار، سوہا بازار، سنہری مسجد اور جانے کیا کیا دیکھتے ، تبصرے کرتے تیزاب احاطے پہنچ جاتے، اس بازار میں کبھی ساز دیکھتے اور کبھی ساز بنانے والے ، زیادہ لڑکے ان دکانوں کے اوپر چوبارے دیکھتے مگر شاہد سازوں کی قیمتیں پوچھتا، انہیں چھو کر دیکھتا اور جب لڑکے آگے بڑھ جاتے تو وہ بھی پیچھے پیچھے چل پڑتا، لڑکوں کو کبھی کبھی جانے کیا سوجھتی کہ نو گزے کی قبر پر رکتے، پہلے سچ جھوٹ اپنے تئیں نکھارتے اور مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی دعا بھی مانگ لیتے، یہ دعا کیا ہوتی؟ کبھی کسی نے دوسرے کو نہ بتائی ۔

وہ لڑکوں کے نام بھی عجب رکھتے تھے مثلاً شاہد کو شیدا بلاتے تھے، ایک لڑکے کا نام تھا لمبی ٹانگوں والا، دوسرے کا ٹیڑھی ٹانگوں والا، تیسرے کا موٹو، چوتھے کا چھوٹو، پانچویں کا کھوٹو یا کچھ ایسا ہی مگر اکثر یار کہہ کر پکارتے تھے اور لڑکے کبھی جناب، کبھی ماسٹر جی، کبھی ماسٹر صاحب ۔ ۔ ۔ ایک بار ایک لڑکے نے یہاں تک کہہ دیا ۔ ’’سر جی، دور سے آتے ہوئے بڈاوے لگتے ہیں ۔ ‘‘ اور پی ٹی ماسٹر مسکرا کر رہ گئے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ گھر جانے والے تھے ۔ وہ چند لمحے بعد خفت مٹانے کے لیے بولے ۔ ’’دوڑ لگا کر دیکھ لو ۔ ابھی پتا چل جائے گا ۔ ‘‘ شاہد جھٹ سے بولا ۔ ’’رہنے دیں ، اپنی عمر دیکھیں اور اپنے چیلنج دیکھیں ۔ ‘‘ اور وہ قہقہہ لگا کر بولے ۔ ’’اوئے سارے اکٹھے ہو گئے او ۔ ۔ ۔ ‘‘ اور لڑکوں نے ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر قہقہہ لگایا اور ایک دو دن بعد وہ آنسو بہا رہے تھے جب وہ ریٹائرہو کر جا رہے تھے اور لڑکوں سے زیادہ بلک بلک کر ماسٹر جی رو رہے تھے مگر چند دن بعد سکول میں قہقہے دوبارہ لگنے لگے ۔ایک بات کسی کو بتانے کی ضرورت نہ تھی کہ وہ سٹی ، ترنم اور ٹاکیز میں تصاویر اہتمام سے دیکھتے اور ان تصاویر سے دلچسپ انہیں وہ جملے لگتے ۔ ’’فیر کیہ پروگرام اے ؟ سستا مال وی اے ۔ تیری عمر دی وی اے ۔ ‘‘ اور وہ کھسر پھسر کرتے قہقہے لگاتے جاتے اور جوتی بازار پار کرکے دائیں ہاتھ ہو لیتے ، یوں اِدھر اُدھر تاکتے وہ یادگار پہنچ جاتے ، کبھی راستے میں بندر کا تماشا بھی دیکھنے کو مل جاتا اور کبھی اُن کے پاس رُکتے جنہوں نے مگرمچھ سے ملتے جلتے چھوٹے چھوٹے سانڈے رکھے ہوتے اور کبھی کہتے سندھ کے صحرا سے لائے ہیں اور کبھی چولستان کا بتاتے اور وہ ہانگ کانگ کے کسی ہوٹل میں کھینچی کوئی تصویر دکھا کر ہوش اڑانے کا اعلان بھی کرتے مگر آدھا گھنٹہ گپیں ہانک کر بھی خبیث لوگ وہ تصویر نہ دکھاتے سو وہ ماندے جی کے ساتھ جی میں گالیاں بکتے واپس اک موریہ پہنچتے، پھر چلتے چلتے مصری شاہ نالا پار کرتے ، مزید چلتے چلتے سکول کے سامنے ایک بار رکتے اور اپنے اپنے گھروں کو جانے والے راستوں کو ہو لیتے ۔

پی ٹی ماسٹر کو شاہد اور دوسرے لڑکوں کی یہ حرکات پسند نہیں تھیں مگر سائنس ماسٹر نے کبھی برا نہیں منایا کہ وہ کمرہَ جماعت سے کھسک کیوں گئے تھے، اس نے جب بھی پیٹا ، شور کرنے پر پیٹا اور دو دو روپے لے کر سزا معاف بھی کر دیتا تھا ۔ وہ ہر دوسرے دن بتاتا تھا کہ راوی پار جہاں وہ پڑھاتا تھا، وہاں بچے بڑے اچھے تھے، اور یہاں جاہلوں سے پالا پڑ گیا جنہیں سائنس کی سین بھی نہیں معلوم ۔ ۔ ۔ لیکن پی ٹی ماسٹر نے شاہد کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا ۔

’’دیکھو بھئی تمہارے کلاس فیلوز سارے کے سارے فیل ہوں گے اور اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ ان سب کے ابا کا اپنا اپنا کوئی نہ کوئی کام ہے ۔ کسی کی برتنوں کی دکان ہے، کوئی سٹیشن پر پان سگریٹ بیچتا ہے، کوئی کڑھائی کرتا ہے، کسی نے کپڑے بیچنے اور کسی نے سینے ہیں ، تمہارے ابا کی کوئی دکان نہیں ۔ تم سوچو تم کہاں بیٹھو گے؟ بانسری بجانے یا ڈرم پیٹنے سے پیٹ نہیں بھرتا ۔ ‘‘

وہ نظریں جھکائے خاموش رہا ۔

’’ دیکھو ۔ اپنے اباکو کہو تمہیں کسی اچھے سکول میں داخل کرائیں ۔ ‘‘

’’بہتر جناب ۔ ‘‘

شاہد یہ سن کر ایک دو دن پریشان رہا، گھر میں ذکر کیا اور بیروزگاری کے دن کاٹ رہے ابا نے بندوبست کرنے کی نوید بھی سنائی اور پھر بات آئی گئی ہوگی ۔ اُس نے خود کو بینڈ کی سرگرمیوں میں مصروف کر لیا ۔ اُنھیں سرکاری سکولوں کی تقاریب میں بینڈ گروپ کے طور پر اکثر بلایا جاتا تھا ۔ ایک بار لاہور کے سکولوں میں بینڈ زکا مقابلہ عتیق سٹیڈیم میں ہوا اور اُن کا سکول حسب توقع پہلے نمبر پر آیا ۔ جب وہ ٹرافیاں وغیرہ لے چکے تو وہیں سیاحت کو آئے ہوئے چند گورے گورے سیاح اُن کے ساتھ فوٹو شوٹو بنوانے لگے ۔ شاہد کو آج بھی وہ امرود کھاتی گوری یاد ہوگی جس نے اُس کا ڈرم انگلیوں سے بجانے کی کوشش کی تھی اور جب شاہد نے اسے خوش کرنے کے لیے پتلون میں اڑسی بانسری نکال کر بجائی تو اس نے شاہد کا دایاں گال چوما تھا اور نوجوان کو اچھا لگا تھا ۔ اب بھی سیاح کبھی کبھار نظر آ جاتے ہیں مگر محتاط دکھائی دیتے ہیں اور شاہد کو حیرانی بھی نہیں ہوتی مگر اس دن مزے کی یہ رہی کہ بینڈ کے تیرہ لڑکے اور پی ٹی ماسٹر عتیق سٹیڈیم سے پیدل سکول پہنچے اور وہاں کوئی نہ تھا سو یہ تکان مارا گروپ چلتے چلتے نیلم سینما پہنچا جہاں پی ٹی ماسٹر کا گھر تھا ۔ لڑکے ہانپ رہے تھے اور ماسٹر صاحب کی حالت ان سے بھی خراب تھی اور وہ بار بار کہہ رہے تھے ۔

’’پتا نئیں کس سور نے میرا بٹوہ اڑا لیا ۔ ‘‘

وہ لڑکوں کو گھر بٹھا کر کھانا لینے باہر چلے گئے ۔ ان کی واپسی تک ماسٹرنی جی نے دودھ سوڈا لال شربت ڈال کر پلا دیا، لڑکے ایک ایک گلاس پی کر بس کر دیتے مگر ماسٹرنی جی نے دو دو پلا کر چھوڑے ۔ جب لڑکوں نے اپنی کارکردگی بڑھا چڑھا کر بتائی تو وہ صدقے واری بھی گئیں اور شاہد نے مسکراتے مسکراتے سہرا پی ٹی ماسٹر کے سر باندھ دیا ۔ جب وہ کھا پی کر رخصت ہونے لگے تو پی ٹی ماسٹر نے ایک ایک ناریل ہاتھ میں تھما دیا اور اپنے ہاتھ سر کے پیچھے لے جا کر کمر سیدھی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولے ۔

’’یار اج تے ٹر ٹر کے مت وج گئی ۔ ہن سدھے گھر جاءو ۔ ‘‘

سب نے ایک ساتھ کہا ۔ ’’بہتر جناب ۔ ‘‘ اور ابھی اُنھوں نے پی ٹی ماسٹر کے گھر کی گلی مڑی نہیں تھی کہ ایک لڑکے نے بٹوہ لہراتے ہوئے کہا ۔ ’’چلو فلم ویکھئے ۔ ‘‘ اور یوں اُنھوں نے اس روز فلم بھی دیکھی ۔

اگلے دن پی ٹی ماسٹر کا بٹوہ ان کے ہاتھ میں تھا اور اس میں پیسے بھی تھے ۔ لڑکوں نے صرف فلم دیکھی تھی اور بوتلیں پی تھیں ۔ پی ٹی ماسٹر بٹوہ ملنے پر بہت خوش ہوئے مگر ایک بات یہ بھی ہوئی کہ اُنھوں نے سارے سکول کو چھوڑ کر صرف تیرہ لوگوں کو اپنے سامنے کھڑا کیا اور پوچھا ۔

’’میرا بٹوہ کس نے غائب کیا تھا؟‘‘

وہ سبھی چپ رہے اگرچہ کچھ ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے جس پر پی ٹی ماسٹر نے ہونٹ بھنچے اور ٹاہلی کی منڈھی ٹہنی میز پر مارتے ہوئے کہا ۔ ’’پیار سے بتا دو ورنہ مار مار کر چمڑی ادھیڑ دوں گا ۔ ‘‘

اُن کی چمڑی مار کھانے کی عادی ہو چکی تھی سو وہ چپ رہے اور اس چپ کا اثر یہ ہوا کہ پی ٹی ماسٹر نے سوال بدل لیا ۔

’’اچھا ۔ پیسوں کا کیا کیا؟‘‘

اتنا پوچھنے کی دیر تھی کہ ایک لڑکے کے منہ سے نکلا ۔ فلم ۔ ۔ ۔ اور پی ٹی ماسٹر نے قہقہہ لگایا مگر وہ نظریں جھکائے کھڑے رہے اگرچہ وہ خوفزدہ یا پریشان نہیں تھے ۔

’’کونسی فلم؟‘‘

کئی لڑکوں نے ایک ہی وقت میں فلم کا نام اور اس کے متعلق اپنی اپنی رائے دینے کی کوشش کی تو پی ٹی ماسٹر بولے ۔

’’ڈنگرو ۔ آئندہ فلم دیکھنی ہو تو میرا بٹوہ چوری نہ کرنا ۔ مجھے کہنا، مل کے دیکھیں گے، اچھی فلم، یہ کیا بکواس فلم دیکھ آئے ہو ۔ پیسے ضائع کر دیے ۔ ‘‘

’’فیر سر جی اگلے ہفتے سلطان راہی دی ویکھئے؟‘‘ایک لڑکے کے منہ سے فوری نکلا اور ماسٹر جی نے فوری ڈانٹ بھی دیا ۔ ’’چپ کر کھوتیا ۔ مینوں یقین اے میرا بٹوہ توں غائب کیتا سی ۔ ‘‘ اور واقعی اسی نے ہاتھ کی صفائی دکھائی تھی لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ پی ٹی ماسٹر لڑکوں کو فلم دکھانے کبھی کبھی لے جانے لگے ۔ وقفے میں نان ٹکی کھلاتے اور بعد میں بوتلیں بھی پلاتے مگر کبھی کبھی وہ لڑکوں کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے کہ اُن کا مستقبل تاریک ہے، ڈراءونا ہے اور ساتھ ہی ہاتھ ملتے ہوئے کہتے ۔ ’’یار میں بھی آٹھ جماعتیں پاس ہوں ، میں تمہیں کیا پڑھاءوں ؟ اگر چار لفظ پڑھا ہوتا تو تمہیں ضرور پڑھاتا ۔ ‘‘

وہ چار لفظ پڑھا تو نہ سکے مگر دف بجانا، کلارنٹ بجانا، ڈرم بجانا اور ایک ساتھ بجانا ضرور سکھاتے تھے ۔ وہ سکول میں اُگے درختوں سے جامن، شہتوت اور آم اتار اتار کر کھانا بھی سکھاتے تھے اور جب کبھی ان کا چار لفظ سکھانے کو جی زیادہ مچلتا تو تاریخ پاکستان سنانا شروع کر دیتے، حب الوطنی کے اسباق اس روانی سے دیتے کہ لڑکے کھو سے جاتے کیونکہ وہ ہر بار اپنے ماں باپ کی داستان ہجرت سنانا کبھی نہیں بھولتے تھے اور داستان سناتے سناتے جب ضبط مشکل ہو جاتا تو لڑکوں کو کھیل کا میدان صاف کرنے بھیج دیتے تھے ۔

کھیل کے میدان میں کیا گندگی ہونی تھی، گندگی کہیں اور تھی ۔ سکول میں بیت الخلا کچرے کا ڈھیر بنے ہوئے تھے، ان کے پاس سے گزرنا بھی ایک کام تھا ۔ اس سے پہلے سکول میں بھی یہی صورتحال تھی حالانکہ یہ دونوں سکول اس محکمے کے ماتحت تھے جس کا کام ہی صفائی ستھرائی ہوتا تھا ۔ سکول کے بیت الخلا کے سامنے مساجد کے بیت الخلا یوں سمجھئے کہ نعمت ۔ ۔ ۔ اگرچہ مساجد کے بیت نصف ایمان کی قلعی خوب خوب کھول رہے ہوتے ہیں مگر اس سکول کے پاس کوئی مسجد نہیں تھی لہٰذا بینڈ کے لڑکوں کو ضرورت پڑتی تو پی ٹی ماسٹر کے زیرتسلط واش روم زندہ باد جبکہ اساتذہ کے لیے بنے مخصوص غسل خانوں پر تالے پڑے ہوتے تھے اور چابیاں ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں لٹک رہی ہوتی تھیں ۔ پی ٹی ماسٹر نے یہ سہولت صرف بینڈ والوں کو دی ہوئی تھی یا کرکٹ ٹیم کا کوئی لڑکا کبھی کبھار مستفید ہو جاتا ۔

شاہد نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ اب گھو میں پھریں مگر ہنس کر ٹال گئے اور پرانی مصروفیت میں کچھ نیا ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئے اور شاید وہ کچھ پا بھی لیتے مگر ایک دن کیا ہوا کہ لڑکوں کے مستقبل کا بھوت ان کے سر پر دوبارہ سوار ہو گیا ۔ لڑکے کمرہَ جماعت میں لکڑی کے بنچوں پر بازو پھیلائے اور بازوءوں میں سر سمائے سونے کی کوشش کر رہے تھے اور سائنس ماسٹر پان سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔ پی ٹی ماسٹر آئے، ایک بار لڑکوں کو ، ایک بار سائنس ماسٹر کو دیکھا اور بولے ۔

’’سر ! ان کے حال پر رحم کریں ، چار لفظ پڑھا دیا کریں ۔ ‘‘

’’جناب ! یہ اس لائق نہیں ۔ بہت نالائق ہیں ۔ شروع سے کسی نے نہیں پڑھایا ۔ اب میں کیا پڑھاءوں ؟‘‘

’’آپ علم والے لوگ ہیں ۔ کچھ نہ کچھ تو پڑھائیں ۔ یوں پان چباتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا ۔ کل یہی بچے بد دعائیں دیں گے ۔ ‘‘

سائنس ماسٹر کو بددعائیں لڑ گئیں ، اس کے منہ سے پیک خود بخود نکل پڑی اور وہ بمشکل کہہ پایا ۔ ’’ اپنے کام سے کام رکھیں ۔ ‘‘اور پی ٹی ماسٹر ’جی بہتر‘ کہہ کر چلے گئے اور سائنس ماسٹر نے، پتا نہیں ، ہیڈ ماسٹر سے کیا گٹ مٹ کی کہ پی ٹی ماسٹر کبھی واپس نہیں آئے ۔ وہ ایسے گئے یا بھیجے گئے کہ مہینہ بھی گھر پر آرام سے نہ نکال پائے، بیمار پڑ گئے اور چند روز میں زندگی کی سرحد بھی پار کر گئے ۔

پھر یوں ہوا کہ ہفتہ ڈیڑھ بعد امتحان ہوئے اور لڑکے تین ماہ بعد باجماعت فیل ہوئے ۔ شاہد نتیجے کی تصدیق کے لیے سکول گیا تو گھر واپس جانے کو جی نہ کیا، آوارہ گردی کی بھی ہمت نہ رہی تھی، ذہن میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے، ابا کا غضب، اماں کے آنسو ، رشتہ داروں میں شرمندگی اور ۔ ۔ ۔ اور پی ٹی ماسٹر کے الفاظ اور مستقبل کا سایہ اور وُہ بچنے کے لیے قبرستان چلا گیا ۔

وہ لڑکا، جس نے پی ٹی ماسٹر کا کبھی بٹوہ اڑایا تھا، اُن کی قبر پر گلاب کی پتیاں بکھیر رہا تھا ۔ اُس نے مدفن پر موتیے کا ہار بھی ڈالا، ایک نظر شاہد پر ڈالی اور آنکھیں بند کرکے دعا مانگنے لگا ۔ معلوم نہیں کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں یا نہیں مگر جب اُس نے بھیگے چہرے پر ہاتھ پھیرکر شاہد کو سوال کرتی نگاہوں سے دیکھا تو اُس نے جواب میں کچھ کہنے سننے کے بجائے قبر کے سرہانے بیٹھ کر نیفے بنسی کی دی ہوئی بانسری ہونٹوں سے لگا لی ۔