مذاکرہ: ن م راشد (ہنر اور لفظیات کے آئینے میں)

یہ تحریر 2885 مرتبہ دیکھی گئی

گفتگو: جیلانی کامران، ڈاکٹر سہیل احمد خان، امجد اسلام امجد

سہیل احمد خان:

اردو نظم نگاری میں نئی ہیئتوں کی تلاش کا کام حالی اور آزاد کے دور سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد مرحلہ وار ہم اردو نظم میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہوئی دیکھتے ہیں۔ ترجموں کا ایک دور آتا ہے۔ نظم طباطبائی اور نادر کاکوروی کے نام اس سلسلے میں بہت مشہور نام ہیں۔ اس کے علاوہ اور کئی شاعر ہیں سرور جہاں آبادی، عظمت اللہ خاں جنھوں نے نظم کی ہیئت میں بہت سی تبدیلیاں کیں۔ آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، ان لوگوں کے ہاں بھی غنائیت کا، آہنگ کا ایک نیا تجربہ سا ملتا ہے۔ لیکن یہ تبدیلیاں، یہ تغیرات جو آہستہ آہستہ سامنے آ رہے تھے اور نظم کی صورتیں غیر محسوس طریقے سے یا قدرے نیم محسوس طریقے سے بدل رہی تھیں۔ جب ہم 1936 اور 1940 کے زمانے تک پہنچتے ہیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب یہ تبدیلیاں بہت تیزی سے آ رہی ہیں۔ اور ہمارے ادب میں کئی نئی تحریکیں شروع ہوئیں تو اسی زمانے میں پہلے ہماری نظم میں سانیٹ لکھنے کا رواج جو ہے وہ شروع ہوا۔ کچھ لوگوں نے سانیٹ کی صنف میں طبع آزمائی کی۔ اس کے بعد نظمِ معریٰ کا زمانہ آیا اور پھر اس کے بعد خالص آزاد نظم کا زمانہ۔ اور پھر آگے چل کر خود آزاد نظم میں جو مختلف داخلی تبدیلیاں آئیں وہ ایک علیحدہ بحث کا موضوع ہے۔ تو جب ہم اس پورے دور پر نظر ڈالتے ہیں اور ان تجربوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو ن م راشد کا نام نئی نظم میں بہت نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتا ہے کہ جہاں پر ہم ان کے کلام میں ان تبدیلیوں کا بتدریج مطالعہ بھی کر سکتے ہیں۔ خود راشد نے بھی شروع میں سانیٹ لکھے ہیں۔ ان کی بھی بعض نظم معریٰ کی ذیل میں آنے والی نظمیں ہیں اور پھر آزاد نظم اور پھر آزاد نظم کے اندر داخلی آہنگ جو ان کی نظموں میں نظر آتا ہے وہ ہمارا آج موضوعِ گفتگو ہے۔ اس کے حوالے سے ہم یہ بھی بتانا چاہیں گے کہ آہنگ یا ہیئت اس کا ایک بنیادی رشتہ موضوع کے ساتھ ہوتا ہے  تو ہر شاعر کا فلسفہ زندگی، اس کا تصورِ حیات، انسان کے بارے میں اس کے تصورات، انسانی تعلقات اور انسانی رشتوں کے بارے میں اس کے معتقدات، ان تمام چیزوں کا اثر بھی ان تجربوں پہ پڑتا ہے۔  تو جب ہیئت کے تجربوں کی بات ہو گی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ موضوع اس میں سے خارج ہو جائے گا بلکہ موضوع اس ہیئت میں بہت زیادہ مرتکز ہو کر ہمارے سامنے آئے گا۔ تو آج اس سلسلے میں راشد صاحب کے ہنر اور ان کی لفظیات پر گفتگو کرنے کے لیے امجد اسلام امجد صاحب اور پروفیسر جیلانی کامران صاحب یہاں تشریف رکھتے ہیں تو ہم اپنی گفتگو کا آغاز امجد صاحب آپ سے کریں گے۔ تو یہ جس دور کا میں نے حوالہ دیا اور راشد کی پہلی کتاب “ماورا” شائع ہوئی پھر اس کے بعد “ایران میں اجنبی” پھر “لا = انسان” اور پھر آخری کتاب ان کی “گماں کا ممکن” تو ان تمام کتابوں میں راشد صاحب کے ہاں موضوعات کے اعتبار سے بھی اور لفظیات اور اسلوب کے اعتبار سے بھی جو تبدیلیاں آتی رہیں، آپ ان پہ تبصرہ یا ایک اجمالی سا جائزہ ۔

امجد اسلام امجد:

سہیل صاحب میرے خیال میں اس کو راشد صاحب کو ایک پوری جسے کلیت یا Totality میں ہی دیکھنا چاہیے۔ آپ نے بالکل صحیح کہا تھا کہ یہ جو اردو شاعری میں عمل ہوا سارا نظم میں تبدیلی کا خود راشد کی اکیلی پوئٹری میں اگر ان کی شاعری کو ہم علیحدہ کرکے دیکھیں تو وہ سارا پراسیس کسی نہ کسی شکل میں ان کی شاعری میں ہی نظر آتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں ہم جدید جو نظم ہے اس میں اتنا بڑا مقام دیا گیا کہ وہ 1940 کے اوائل میں ان کی کتاب چھپی۔ اور پھر اس آئی صدی کی آٹھویں دہائی تک تقریباً چالیس برس تک وہ محیط ہے ان کا اثر جو ہے جتنی نسلیں ان کے بعد آئیں شاعری میں خصوصاً نظم نگاروں میں وہ کسی نہ کسی طرح راشد سے متاثر ہوتی رہیں۔ لیکن خود راشد کو میں نے جب پڑھا تو ایک مجھے بڑی عجیب حیرت ہوئی کہ ان کی وہ کتاب جس کو اس زمانے میں ایک بہت انقلابی کتاب کہا جاتا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے انھوں نے ہیئت کے تمام مروجہ اصول بدل دیے ہیں۔ جب اب ہم اس کتاب کو پڑھتے ہیں تو وہ کتاب خود بھی ایک پرانی کتاب لگتی ہے۔ یعنی اس میں جو انھوں نے ہٹے ہیں اپنے زمانے کے موجود جو طریقے تھے اور جو اسالیب تھے تو وہ بغاوت اتنی زیادہ اب نہیں لگتی۔ اس زمانے میں شاید اس لیے لگتی ہو کہ اس وقت اس طرح کی چیزوں کا رجحان نہیں تھا۔ بالکل ابتدا میں انھوں نے اور خصوصاً یہ جو ہمارے شعرا ہیں جو بیسویں صدی کے اوائل میں جنھیں انگریزی ادب پڑھنے کا اتفاق ہوا تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں ہیئتوں کے تجربے جو ہیں وہ اسی زمانے میں باقاعدہ طور پر شروع ہوئے۔ اس سے پہلے مولانا حالی نے کچھ تجربے کیے لیکن اس میں کنٹینٹ جو ہے وہ ان کی بنیاد تھی۔ تو ہیئت میں ان کے ہوئے۔ آپ نے سانیٹ کا ذکر کیا تو میں صرف یہ بتانے کے لیے کہ راشد صاحب کی اپنی شاعری میں ان کی جو لفظیالوجی اسے کہہ لیں یا لفظیات جو کہیں اس کو وہ کیسے ڈیویلپ ہوئی۔ تو ان کی پہلی کتاب میں مثلاً سانیٹ کے دو بند ہیں وہ میں آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں اور پھر “گماں کا ممکن” کی ایک نظم جس سے یہ پتا چلے کہ چالیس برس میں خود ان کے یہاں کیا ڈیویلپمنٹ ہوئی۔ مثلاً “ماورا” میں وہ لکھتے ہیں کہ:

سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں

اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا

نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا

سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا

یہ ان کا ایک سانیٹ ہے۔ میں اسے واقفِ الفت نہ کروں۔ لیکن اس کے مقابلے میں جب ہم یہ دیکھتے ہیں “گماں کا ممکن” میں کہ موت کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ:

وہ ہماری لذتِ عشق میں

وہ ہمارے شوقِ وصال میں

وہ ہماری ہُو میں شریک ہے

کبھی کھیل کود میں ہوں جو ہم

تو ہمارے ساتھ حریف بن کے ہے کھیلتی

کبھی ہارتی کبھی جیتتی

کسی چوک میں کھڑے سوچتے ہوں

کدھر کو جائیں

تو وہ اپنی آنکھیں بچھا کے راہ دکھائے گی

جو کتاب خانے میں جا کہ کوئی کتاب اٹھائیں

وہ پردہ ہائے حرف ہم سے ہٹائے گی

وہ ہماری روز کی گفتگو میں شریک ہے۔

تو اب یہاں پتا یہ چلتا ہے کہ کس طرح ان کا جو موضوع ہے وہ ان کو اس روایتی جو سانچے ہیں نظم کے ان میں ڈویلپ کرتے کرتے اس سطح پہ لے آیا ہے کہ وہ چار دہائیوں میں جو تبدیلیاں ہوئیں اس کے ساتھ ساتھ آخر وقت تک کرتے رہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی شاعر کے لیے یہ ایک بہت بڑی کسوٹی ہوتی ہے ایک بہت بڑا امتحان ہوتا ہے کہ جب وہ ایمرج کرتا ہے تو اس کے بعد کی جو نسلیں ان میں وہ سروائیو کیسے کرتا ہے تو راشد کی جو کرافٹ مین شپ ہے جو ہنر ہے یا لفظیات ہے اس پر مزید روشنی تو جیلانی صاحب ڈالیں گے میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ ان میں اتنی قوت یقینا ہے کہ اس نے اپنے بعد آنے والی چاروں دہائیوں کو کسی نہ کسی طرح  اپنا اثیر رکھا۔

سہیل احمد خان:

یہ صحیح فرمایا آپ نے۔ اور “ماورا” کا بھی آپ نے درست حوالہ دیا۔ دراصل بات یہ ہے کہ اس زمانے میں بے قافیہ شاعری جو ہے یہ اپنے طور پر ایک بڑی بغاوت سمجھی جاتی تھی اور آپ جانتے ہیں کہ کتنی پیروڈیز ان لوگوں کی گئیں کہ جناب یہ تو ایک ایسی صنف یہ لے کے آ رہے ہیں جس کے اندر کوئی جان نہیں ہے جس کا ہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ نے بتایا کہ خود انھوں نے بھی ایک طویل سفر اس کے اندر کیا، ہنر کا اور پھر نئی نسلیں جو آئیں انھوں نے بھی اس صنف کو اپنایا اور اب یہ صنف ایک مستحکم بنیادیں ہمارے ہاں رکھتی ہے۔ تو جیلانی صاحب اب یہ جو امجد صاحب نے جو راشد صاحب کے ایک سفر، ذہنی سفر کی طرف اشارہ کیا ، وہ موضوعات کے حوالے سے بھی ہے اور اسالیب کے حوالے سے بھی ہے۔ تو آپ اس فضا کے بارے میں کچھ ۔۔۔

جیلانی کامران:

بات یہ ہے کہ جب راشد کی کتاب شائع ہوئی “ماورا” 1940ء میں تو جہاں وہ رجحانات موجود تھے جن کی طرف ہمارے دوست امجد صاحب نے اشارہ کیا ہے، یہ ہے کہ انھوں نے نظم کا ایک نیا تصور پیش کیا۔ اس سے پہلے ہمیں تجربے دکھائی دیتے ہیں۔ بلینک ورس کو اردو میں کس طرح استعمال کیا جائے۔ وہ عظمت اللہ خاں نے بھی کیے اور ان سے پہلے بھی ہوئے ہیں۔ لیکن ہم اُن کے اِن تجربوں کو دیکھیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ  اُن سے مصرع بلینک ورس کا سنبھالا نہیں گیا اور وہ نظم نہیں بن سکا۔ وہ جتنے بھی تجربے بیسویں صدی کی ابتدا میں ہوئے ہیں وہ تجرباتی ہیں۔ ان میں میرا خیال ہے کہ صرف تجربہ، تجربے کی خاطر کیا گیا ہے۔ لیکن راشد تک پہنچتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ راشد جیسے خود کہتے ہیں کہ انھوں نے فارم میں جو تبدیلیاں کیں ہیں، ہیئت میں جو تبدیلیاں کیں ہیں، وہ عصری دباؤ اور تقاضوں کے باعث کی ہیں۔ کیوں کہ وہ قدیم سانچوں میں وہ بات نہیں کر سکتے تھے، جو آسانیاں انھوں نے آزاد نظم نے مہیا کیں ۔  اب یہ ان کا ہنر جو اگرچہ گفتگو کریں تو یوں لگے گا کہ انھوں نے مروجہ بحروں کو لیا، انھی عروض کو لیا اور ارکان کی کمی بیشی کر دی۔ اس طرح وہ ایک اعتراض ہوا کہ ایک مصرع لمبا ایک مصرع چھوٹا ہے۔ جس پہ محمد جعفری صاحب نے کسی زمانے میں کہا تھا کہ “ایک مصرع فیل بے زنجیر کی زندہ مثال دوسرا اُشتر کی دُم” تو نہ صرف انھوں نے ارکان کی کمی بیشی کی بلکہ اس کے ساتھ انھوں نے تشخص کو استعمال کیا کہ کریکٹرز کے ذریعے سے کیفیت کو بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جتنی بھی “ماورا” میں نظمیں ہیں ان کو نیازمند کی سوانح حیات نہیں سمجھا جائے۔ میں نہیں بولتا۔

سہیل احمد خان:

لیکن یہ بعد میں کہا، کافی زمانے بعد  انھوں نے کہا۔

جیلانی کامران:

اس کے ساتھ ایک اور بات جو ہے وہ یہ  کہ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اور وہ اپنی زیادہ پختہ منازل پہ پہنچے تو ان کی نظموں میں بریکٹس کا  استعمال بھی شروع ہوا۔ جن کو ہم خطوطِ وحدانی کہتے ہیں اور راشد کا کہنا یہ ہے کہ جہاں خطوطِ وحدانی ہے وہاں میں ایک متوازی صورت حال پیش کرتا ہوں۔ ایک نظم اور خطوط وحدانی کے ساتھ ایک نئی نظم شروع ہو جاتی ہے۔ اب اگر ہم ان نظموں کو دیکھیں تو ایک بات میں اپنے ذاتی تجربے سے کہوں گا۔ وہ یہ ہے کہ “ایران میں اجنبی” انھوں نے 1942ء میں ایران میں لکھنا شروع کی۔ جب کہ “ماورا” پہلے چھپ چکی تھی۔ پاکستان بننے کے فورا بعد ہمیں “ایران میں اجنبی” پڑھنے کے لیے ملی۔ اس کے بعد راشد صاحب یونیسکو چلے گئے اور کافی لمبے عرصے تک ہمیں ان کی نظمیں پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ پھر “لا=انسان” یہ  1969ء میں شائع  ہوئی اور یہ ان کی وفات کے بعد کتاب شائع ہوئی “گماں کا ممکن”۔ اب ان دونوں کتابوں کی زبان، ان دونوں کتابوں کا ہنر پہلی دو کتابوں کی لفظیات سے اور ہنر سے مختلف ہے۔ اگر ہم یہ دیکھیں “ماورا” کی نظمیں تو “ماورا” کی نظم جو ہے وہ ہمیں ان نظموں کے مقابلے میں آخر میں آئی ہیں ہمیں قدیم نظم دکھائی دیتی ہے۔ وہی چھوٹے بڑے مصرعے۔ لیکن جہاں تک لفظیات کا تعلق ہے تو آپ (امجد اسلام امجد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) نے بھی سانیٹ  ۔۔۔۔ کہ لفظیات جب راشد نے شروع کی اپنی “ماورا” میں نظمیں تو وہ ہے کہ

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ

میں ابھی اُس کو واقف الفت نہ کرو

اختر شیرانی کا انداز ہے۔ اور فارسی کی ترکیبیں تو ان کے ہاں ہمیں لفظیات دو طرح کی ملیں گی۔ ایک جو فارسی سے حاصل کی گئی ہے اور ایک وہ جو عام زبان سے حاصل کی گئی ہے۔ مثلاً یہ دیکھیے “دریچے کے قریب” ۔ “دریچے کے قریب” میں کھڑکی کو استعمال نہیں کیا دریچہ کیا ہے کہ

جا گئے شمعِ شبستانِ وصال

مخملِ خاک کے اک فرشِ طربناک سے جاگ

اس دریچے میں سے دیکھ

صبح کے نور سے شاداب سہی

دیکھ انوارِ سحر

مسجدِ شہر کے میناروں کو

جن کی رفعت سے مجھے اپنی برسوں کی تمنا کا خیال آتا ہے

اس میں دیکھیے گا کہ ” جن کی رفعت سے مجھے اپنی برسوں کی تمنا کا خیال آتا ہے” اس میں فارسی کی میں وہ لفظیات کم ہیں لیکن “مخملِ خاک کے اک فرشِ طربناک سے جاگ” اس میں فارسی زیادہ ہے۔ اسی طرح جب ہم چلتے جائیں ان کی آخر کی نظمیں دیکھیں۔ آخری جو دو مجموعے ہیں ان میں  تو وہاں ہمیں یہ نظمیں ملتی ہیں:

آدمی سے ڈرتے ہو

آدمی تو تم بھی ہو

آدمی تو ہم بھی ہیں

اس میں اور طرح کی لفظیات ہیں۔ یا یہ دیکھیے:

اجل ان سے مل

نہ اہلِ کتاب اور نہ اہلِ زمیں

نہ اہلِ کتاب اور نہ اہلِ مشیں

نہ اہلِ خلا اور نہ اہلِ زمیں

فقط بے یقین

اجل ان سے مت کر حجاب

اجل ان سے مل

یا وہ

اسے ضد تھی نور کے ناشتے میں شریک ہونے کی

یوں دیکھیے گا کہ نظمیں جو ہیں ان میں زیادہ سے زیادہ جو ہے رجحان وہ انگریزی کے ایک لفظ کی اجازت دیجیے، کنورسیشنل بنتا جا رہاہے۔  مکالماتی ہے۔ اچھا یہ جدید انسان جیسے جیسے سفر کرتا ہے اور آخری کتابوں میں ہم اس کی شکل دیکھتے ہیں اور لفظیات کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو اس میں ہمیں تصوف کے الفاظ دکھائی دیتے ہیں۔ کشفِ ذات ہے، الہام ہے، الہاد ہے، اس میں وجود کے الفاظ ہیں۔ یہ دیکھیے:

اے عشق ازل گیر ابد تاب ،وصال ، حاشیہء مرگ، نالہء درویش، مہماں سرا، آذانِ زیر لب، نقطے، لکیریں جو ایک ہے جس کا کوئی نام نہیں ہے۔  یارانِ سرِ پل ، ہست کے صحن، آذانِ شہر، دن کا ساحل، کلام کلامِ قرب ہے، روایت، نئے آدمی کا نزول، وجودِ بے ثبات، خدا کا لاشعور اور صبح کے لیے فجر، جو تو ہے میں ہوں، صورت گر، پردے، رویا، خواب، سماوی خرام، اموات ۔

سہیل احمد خان:

اور پھر آخر میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ہاں آزاد نظم کے اندر رہتے ہوئے داخلی آہنگ کے بہت تجربات ہوئے۔ تو میں چاہتا تھا کہ کچھ ان چیزوں کی طرف۔۔۔۔

امجد اسلام امجد:

جی میں عرض کرتا ہوں۔ سب سے پہلی بات جو آپ کا ڈرامائی عنصر ہے ۔ ایک اُن کی نظم میں “ماورا” میں۔ نظم کا عنوان تو بڑا روایتی سا “زندگی، جوانی، عشق اور حسن”۔ اس نظم میں عورت اور مرد کا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آدم اور حوا کے ریفرنس سے انھوں نے ایک مکالمہ بنایا ہے زندگی کے بارے میں۔ ایک تو ان کی جو ڈرامائی انداز ہے وہ نظر آتا ہے۔ میں توجہ آپ کی دلانا چاہتا ہوں کہ لفظوں کے استعمال کے بارے میں کہ جہاں انھوں نے کچھ انگریزی کے لفظ جو ہیں ان کو اردو شکل دینے کی کوشش کی۔ یا کچھ ایکسپریشن جو ہیں ان میں لفظ کوائن کیے، خود بنائے ہیں۔ مثلاً وہ لفظ اردو میں اس سے پہلے کم از کم میری نظر سے نہیں گزرے۔ ایک دو مثالیں میں آپ کے عرض کرتا ہوں۔ مثلاً وہاں ایک ہے کہ

گزاری ہیں کئی راتیں تیاتر میں سلیما

اب یہ تھیٹر کو وہاں انھوں نے تیاتر کیا ہے۔ یا ہے کہ:

ان کے پہنچوں میں وہاں روح کے تیارے میں

صورتِ نور سے یا آنکھ کے پلکارے میں

اب یہ پلکارے کا جو استعمال ہے یہ بالکل خالص ایک پنجابی   اور اس نے بنیاد سے اپنی گراس کوڈ سے نکالا ہے۔ یا جیسے امیجز ہیں یہاں کچھ کہ

نیند ہے آغازِ زمستاں کے پرندے کی طرح

تو ایک دو ان کی نظمیں ان میں ایسی ہیں کہ جن میں انھوں نے باقاعدہ  ایسے قافیے کوائن کیے ہیں جن میں وہ پورے کے پورے قافیے ہی  لائق۔۔۔۔

سہیل احمد خان:

بہرحال جو گفتگو ہوئی اس سے یہ ضرور سامنے آیا کہ راشد صاحب آزاد نظم کے آغاز کے دور میں اور وہاں سے وہ جو نئی نظم نگاری تھی ، مختلف تحریکیں ہیں ان میں ایک پیش رو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک طویل عرصے تک ان کے یہ اثرات جو ہیں یہ محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ۔

بہ شکریہ: پاکستان ٹیلی ویژن، ڈاکٹر زبیر خالد