مجھے گزرے ہوئے سارے زمانے یاد آتے ہیں

یہ تحریر 882 مرتبہ دیکھی گئی

70 کے دہے میں لکھنؤ کے سرپھرے نوجوانوں کی ایک ادبی انجمن ‘مجلس حملہ آوراں’ کے نام
زوالِ شب میں جب قصے پرانے یاد آتے ہیں
مجھے گزرے ہوئے سارے زمانے یاد آتے ہیں

جلو میں جن کے میری شام میری شب گزرتی ہے
وہ سب اہلِ جنوں وہ سب دوانے یاد آتے ہیں

جہاں بنتے تھے موضوعِ سخن سارے سخن پارے
گلی، فٹ پاتھ کے وہ چائے خانے یاد آتے ہیں

براے سیرِ گل جن موسموں میں ہم نکلتے تھے
بھری بارش میں وہ موسم سہانے یاد آتے ہیں

سخن دانشورانہ ، گفتگوئیں علم سے روشن
مجھے وہ روشنی کے سب خزانے یاد آتے ہیں

جہاں پر جوش بحثوں کے لیے ہم جمع ہوتے تھے
دل وحشی کو وہ سارے ٹھکانے یاد آتے ہیں

ہم اپنی بزم میں جن مہ جبینوں کو بلاتے تھے
اب ان سب کے نہ آنے کے بہانے یاد آتے ہیں

ہمارے حرف ہوتے تھے منور جن کی چوکھٹ پر
سب ان دیدہ دروں کے آستانے یاد آتے ہیں

بنائے تھے جو گلہائے سخن کی شاخ پر ہم نے
پرندوں سے بھرے وہ آشیانے یاد آتے ہیں

سروں پہ چھن کے جن سے آگہی کی دھوپ آتی تھی
وہ سب عقل و خرد کے شامیانے یاد آتے ہیں

ہوں آسودہ مگر جو تنگ دستی میں میسر تھے
مجھے اب بھی وہ دانائی کے دانے یاد آتے ہیں

مزہ ملتا تھا ہم سب کو بہت لڑنے جھگڑنے میں
بہت اک دوسرے کے تازیانے یاد آتے ہیں

نمودِ صبح میں بجتے ہوئے تاروں کے سازوں پر
نواے رخصتِ شب کے ترانے یاد آتے ہیں

شکیل و شہنواز و ناصری و کاظم و اشرف٭
تمھارے تلخ و شیریں سب فسانے یاد آتے ہیں

بہت مسعود و مرزا٭ کی کمی محسوس ہوتی ہے
بہت ‘حملہ وراں’ تیرے یگانے یاد آتے ہیں

٭ شکیل: شکیل صدیقی ہندی کے مشہور ادیب۔
شہنواز: شاہ نواز قریشی، ادیب، افسانہ نگار اور لکھنؤ سے شائع ہونے والے مشہور ادبی رسالے ‘نیا دور’ کے سابق ایڈیٹر۔
ناصری: وقار ناصری ، شاعر، ادیب اور ناول نگار۔
کاظم: مرزا محمد کاظم، شاعر اور ‘اتر پردیش اردو اکادمی’ کے سابق سپرنٹنڈنٹ
اشرف: اشرف عابدی، شاعر اور آل انڈیا ریڈیو / ٹیلی ویژن کے سابق پروگرام پروڈیوسر
٭ مسعود: محمد مسعود، شاعراور صحافی، حال ہی میں جن کی موت کووڈ میں ہوئی۔
مرزا: شہنشاہ مرزا، شاعر، ناقد اور ‘مجلس حملہ آوراں’ کے رکنِ رکین۔ 1988ء میں دل کے مرض میں مبتلا ہو کر چل بسے۔