‘لفظ کی تاریخ کہیں جنگ کی تاریخ تو نہیں’

یہ تحریر 158 مرتبہ دیکھی گئی

لفظ کی تاریخ کہیں جنگ کی تاریخ تو نہیں
لفظ سے اب جنگ کی بو آتی ہے
ان لفظوں سے بھی جنہیں جنگ کی تاریخ کا گواہ بننا ہے
لفظ بھی اب گریزاں ہیں
انہیں اپنی تقدیر پر پشیمانی ہے
موضوع کچھ بھی ہو رخ جنگ کی طرف ہو جاتا ہے
لفظ کی تاریخ کا آغاز جنگ سے ہوا تھا
یا بہت تاخیر سے اس کا علم ہوا
احمد دین نے کہا تھا
“لفظ کی تاریخ جنگ کی تاریخ سے بڑی ہوتی ہے”
شاید اس وقت تک لفظ کا لہو لہان چہرہ سامنے نہیں آیا تھا
جنگ کی تاریخ لفظ کی تاریخ سے بڑی ہوتی ہے
یا بڑی ہوگی
یہ آواز اب لفظ سے آتی ہے
لفظ کی یہ آواز احمد دین نے شاید نہیں سنی تھی
کتنی جنگیں لڑی جا چکی تھیں
لفظ کب سے اپنے لہو لہان وجود کا اعلان کر رہا ہے
خون میں نہائی ہوئی زندگی
ہر روز اپنا لباس تبدیل کر لیتی ہے
جسم کا لباس کتنا پراناہو چکا ہے
خون کا لباس جسم کے اندر کب سے تیار ہو رہا ہے
اس کی خبر پہلے پہل کس نے دی تھی
یہ قصہ کتنا پرانا تھا
اب کتنا نیا معلوم ہوتا ہے
جسم کے اندر سے خون کا لباس فوارے کی صورت نکلنا چاہتا ہے
وجود کے اندر کتنا رن پڑا ہے
پاس کی دنیا کتنی آسودہ ہے
اسے پتہ ہی نہیں کہ جسم کا لباس کتنا پرانا اور دریدہ ہو چکا ہے
اس میں زندگی کے آثار آئیں تو کہاں سے آئیں
ایک ہی خطے کی زندگی میں اتنی آسودگی اور ہنگامی صورت
کہیں کتنی آسودگی ہے کہیں کتنا شور مچ رہا ہے
ایسی آسودگی پر شرم آتی ہے
نیندکی کتنی فراوانی ھے
صبح کی پہلی کرن خون کی لکیر ہی تو ہے
گہری نیند سونے والوں کی آنکھیں کتنی بے خواب ہیں
ایک خواب کب سے پامال ہو رہا ہے
پہلے پہل تعبیر نے کتنا حوصلہ دیا تھا
جسم کے اندر خون کا لباس کب تک تیار ہوتا رہے گا
خون کی گردش ہر بار ایک نیا لباس لے آتی ہے
اس کی گردش کا قبلہ، “قبلہ اول” ہے
میں نے خون کے انہی فواروں سے بننے والے لباس کو دیکھ کر قبلہ اول کو دیکھا اور محسوس کیا ہے

11/10/2023