غزل
اشفاق عامر
خواب افسردگی میں جانے کدھر کھو جائے
خود میں سمٹے کہ مناظر میں نظر کھو جائے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائیں مرے ساتھی مجھے
وہ مسافر ہوں جو دوران سفر کھو جائے
اپنے ہی کمرے میں دیواروں سے ٹکراتا پھروں
کوئ کھڑکی نہ کھلے کمرے کا در کھو جائے
لے کے آؤں میں بڑے شوق سے تازہ اخبار
منتظر جس کی ہوں آنکھیں وہ خبر کھو جائے
خود کو ای میل کروں خود کو بتاؤں ہر بات
میرا ساتھی میرا ہم خواب اگر کھو جائے