غزل

یہ تحریر 1077 مرتبہ دیکھی گئی

حاکمِ شہر کا یوں مجھ پہ کرم ہوتا ہے

حق جو لکھوں تو مرا ہاتھ قلم ہوتا ہے

آنکھ اٹھا کر جو ترے شہر میں چلتے ہیں بہت

سر انھیں کا تری سرکار میں خم ہوتا ہے

روز ہوتا ہے کوئی موت کی محمل میں سوار

روز آباد ترا شہرِ عدم ہوتا ہے

ورنہ جنگل میں ترے خاک اڑا کرتی ہے

کوئی آہو چلا آتا ہے تو رم ہوتا ہے

ناامیدی میں زمیں تنگ نظر آتی ہے

حوصلہ ہو تو فلک زیرِ قدم ہوتا ہے

مہربانی میں نہیں کم ہیں یہ خوباں لیکن
جاں نکل جاتی ہے تن سے تو کرم ہوتا ہے

پہلے کٹتا تھا سرِ سینہء مقتل اور آج
کرسیِ عدل پہ سر میرا قلم ہوتا ہے

ٹیس اٹھتی ہے تو کچھ اور اسے اٹھنے دے
درد جب حد سے گزرتا ہے تو کم ہوتا ہے

ہم ہی ہر معرکہء صبر میں جاں دیتے ہیں
سر سنانوں پہ ہمارا ہی علم ہوتا ہے

اور اب کیا ہوں نمایاں کہ ستونِ حق پر
قلمِ خوں سے مرا نام رقم ہوتا ہے

تازیانوں سے زیادہ یہ کسے ہے معلوم
جو ستم کرتے ہیں ان پر بھی ستم ہوتا ہے

اس کی فریاد میں دکھ میرا بھی شامل ہے انیسؔ
نوحہ وہ کرتا ہے دیدہ مرا نم ہوتا ہے