غزل

یہ تحریر 1006 مرتبہ دیکھی گئی

سب خوش نظراں دیدہء حیران سے ہٹ جائیں

گر میرے ہرن دشت و بیابان سے ہٹ جائیں

ایسا تو نہیں سر کہ تیرے سامنے جھک جائے

ایسی تو نہیں تیغ کہ میدان سے ہٹ جائیں

آنے کو ہے اس راہ میں اُس گل کی سواری

سارے خس و خاشاک گلستان سے ہٹ جائیں

بجھنا ہے اگر آگ تو یہ تیز ہوائیں

کچھ دیر کو اس قریہ ء ویران سے ہٹ جائیں

یہ ہم جو ترے دھیان میں رہتے ہیں بہ ہر آن

کیا ہو جو کسی آن ترے دھیان سے ہٹ جائیں

باندھا ہے مری جان تو قائم بھی رہیں گے

ہم تیری طرح کب ہیں جو پیمان سے ہٹ جائیں

آتے نہیں گاہک تو اٹھا لیں گے خسارہ

نقصان میں کیوں عشق کی دوکان سے ہٹ جائیں

زنجیر نہیں اور سو حاکم کا ہے فرمان

قیدی جو پرانے ہیں وہ زندان سے ہٹ جائیں

دیکھو گے کہاں اور ستاروں کا ٹھکانہ

آنسو جو مرے کل مری مژگان سے ہٹ جائیں

میں نے جو ترے ہجر میں دن رات لکھی ہیں

اچھا ہے وہ غزلیں مرے دیوان سے ہٹ جائیں

تن خاک کا زیور ہو تو سر تیغ کی زینت

مقتل سے جو ہٹنا ہے تو اس شان سے ہٹ جائیں