غزل

یہ تحریر 1105 مرتبہ دیکھی گئی

یہ اب جو کربلا سب کے سخن میں آشکارا ہے

بہت پہلےسے میری شاعری کا استعارہ ہے

ابھی ہم طفلِ مکتب تھےمگر احساس تھا ہم کو

یہ خوں کا معرکہ معنی کشائی کا سپارہ ہے

اگرمشقِ سخن میں رات دن مصروف ہم رہتے

تو ہم کہتے کہ یہ طرزِ سخن سارا ہمارا ہے

چلو خامہ کوئی ہو مہرِ معنی ہو گیا روشن

نہیں کچھ بحث اس سے کیا ہمارا کیا تمھارا ہے

بہت گزرے سلاطینِ سخن از میر تا غالب

مگر لفظ و معانی پر یہاں کس کا اجارہ ہے

سلیقہ ہے یہ حرف و صوت کو ترتیب دینے کا

کہیں کیوں پیکرِ شعر و سخن ہم نے سنوارا ہے

کوئی گریہ کناں رہتا ہے روز و شب مرے اندر

یہ اس کا قرض ہے میں نے غزل کہہ کر اتارا ہے

نہیں یہ حرف ہیں، یہ زخم ہیں جو میں نے کھائے ہیں

کتابِ شاعری میں جا بجا خوں آشکارا ہے

محبت میں سبق کچھ سیکھنا تھے بے وفائی کے

غلط کیا ہے جو میں نے اِن بتوں پر دل کو وارا ہے

کھلی جو آنکھ تو جانا کہ ہم نے خواب دیکھا ہے

اِدھر ہے اک پری چہرہ اُدھر اک ماہ پارہ ہے

سو اب کے میرا جل کر خاک ہو جانا یقینی ہے

میں جس پر جان دیتا ہوں وہ گل رو اک شرارہ ہے

اسی میں اپنا دکھ اپنا الم سب رکھ دیا میں نے

یہی پارہ سخن کا زندگی کا گوشوارہ ہے

اٹھائے رنج دنیا کے ہزاروں بار ٹوٹا ہے

سلامت جو نظر آتا ہے دل وہ پارہ پارہ ہے

وہ جب پہلو میں بیٹھا ہو فلک کی سیر کیوں کیجے

یہیں مہتاب روشن ہے یہیں روشن ستارہ ہے

ابھی کچھ دن ہمیں سیلِ بلا میں اور رہنا ہے

ابھی کشتی نہیں سنبھلی ابھی اوجھل کنارا ہے