غزل

یہ تحریر 1200 مرتبہ دیکھی گئی

O

چاک پر صبح و مسا، کون چڑھاتا ہے مجھے
نوبہ نو شکل میں لاتا ہے، بناتا ہے مُجھے

اک جہاں اور ہے اِس دہر کی پہنائی میں
وہ نہیں ہے کہ جو باہر نظر آتا ہے مُجھے

کبھی روشن کبھی تاریک بنا دیتا ہے
مثلِ قندیل جلاتا ہے بجھاتا ہے مجھے

وہ کہ ہیں اہلِ سُخن مشقِ سُخن کرتے ہیں
کون ہوں میں، کہ سخن کھینچ کے لاتا ہے مجھے