غزل

یہ تحریر 1128 مرتبہ دیکھی گئی

برقِ چشم ناز کا اعجاز تھا

دل کا ہر ذرہ تجلی ساز تھا

بجھ گیا آخر چراغِ شام بھی

اک یہی باقی مرا ہم راز تھا

دیر تک گونجی صدائے بازگشت

آخری نغمہ شکستِ ساز تھا

کائناتِ دل ہوئی زیر و زبر

یہ کرم تیرا نگاہِ ناز تھا

جیسے سناٹا سکوتِ موت کا

دل کی ویرانی کا یہ انداز تھا

اک کرشمہ تھا خرامِ دوست کا

فتنہء محشر کو جس پر ناز تھا

سوچتی کیوں رہ گئی چشمِ طلب

جب وہاں بابِ اجازت باز تھا

منزلِ آخر میں پنہاں شوق کی

ذرہ ذرہ میرا ہم آواز تھا