غزل

یہ تحریر 1246 مرتبہ دیکھی گئی

اب کے ہمارے شہر میں شورِ نوا کچھ اور ہے

سن تو رہے ہیں اور کچھ لیکن ہوا کچھ اور ہے

کرسیِ عدل پر عجب ہے اس کی منصفی کا ڈھب

میں نے کہا کچھ اور تھا اس نے سنا کچھ اور ہے

اب کے شجر کی شاخ پر کوئی نہ آئے گا ثمر

پہلے ہَوا کچھ اور تھی اب کے ہَوا کچھ اور ہے

میں نے امیرِ شہر کے جھوٹ کو جھوٹ کہہ دیا

پہلے بھی کم خفا نہ تھا اب وہ خفا کچھ اور ہے

تجھ کو شہی پہ اپنی ناز اور میں شہی سے بے نیاز

تیرا سرور اور کچھ میرا نشہ کچھ اور ہے

عشق کسی سے کرکے دیکھ تو بھی کسی پہ مر کے دیکھ

وہ جو ہے اِس میں جاں کنی اُس کا مزہ کچھ اور ہے

شمع شبیہِ یار کی جب سے ہے یاں دھری ہوئی

خانہء دل کے طاق میں اُس کی ضیا کچھ اور ہے

دیکھ کہ ایک ہی شاخ پر دونوں دوئی میں ہم دگر

برگ کا پیرہن ہے اور گل کی قبا کچھ اور ہے

معنی بدل گئے ہیں سب اِس کا ہے ایک ہی سبب

میں نے لکھا کچھ اور تھا اس نے پڑھا کچھ اور ہے

تسکیں نہ دے کوئی حبیب دارو نہ دے کوئی طبیب

دل میں جو میرے درد ہے اُس کی دوا کچھ اور ہے

ہے جو نظر کے سامنے وہ تو نظر کا ہے فریب

تیرے ہر ایک نقش میں میرے خدا کچھ اور ہے

ق

باغ نہیں وہ باغ ہے شاخ نہیں وہ شاخ ہے

شانہء گُل ہے اور کچھ دستِ صبا کچھ اور ہے