غزل

یہ تحریر 1243 مرتبہ دیکھی گئی

دور سے ہم کو لگا تھا بے زباں آ بِ رواں
اگلے ہی پل تھا صداؤں کا جہاں آ بِ رواں
اک سہانی شام کے رنگوں کے گھیرے میں کہیں
میں، مری تنہائی، یادِ رفتگاں، آ بِ رواں
شاخ سے پھولوں کو کھینچا ان کے اپنے عکس نے
جانے اب لے جائے گا اُن کو کہاں، آ بِ رواں
میں بھی راہی ہوں، مجھے اپنے سفر کا راز دے
کس کی خاطر یہ تلاشِ جاوداں، آ بِ رواں
اے سفر کی رو! مجھے دم بھر کی فرصت چاہیے
ایک لمحے کے لیے رک جا یہاں، آ بِ رواں