غزل

یہ تحریر 2090 مرتبہ دیکھی گئی

خواب ہے آنکھوں میں اور دل کی نگہبانی میں ہے

دیر تک تازہ رہے گا یہ کنول پانی میں ہے

پھول سا چہرہ غموں کی دھوپ سے کمہلا گیا

آئنہ بدلے ہوۓ منظر کی حیرانی میں ہے

کر لیا اس نے تباہی کا سروسامان خود

آدمی اپنے گناہوں کی پشیمانی میں ہے

تھوڑا تھوڑا غم خوشی سے ہم لگا لیتے گلے

مسئلہ سارا غموں کی اس فراوانی میں ہے

اک اجالا میرے اندر ہے کسی کی یاد کا

اک ستارہ جھلملاتا اس کی پیشانی میں ہے

اس اکیلے پن میں تھوڑا خوش بھی رکھتی ہے مجھے

ایک خوشبو جو مرے کمرے کی ویرانی میں ہے

منتشر رہتی ہے ہر شے اس طرح احساس میں

جیسے دنیا اپنے ہونے کی پریشانی میں ہے