خواب ہے آنکھوں میں اور دل کی نگہبانی میں ہے
دیر تک تازہ رہے گا یہ کنول پانی میں ہے
پھول سا چہرہ غموں کی دھوپ سے کمہلا گیا
آئنہ بدلے ہوۓ منظر کی حیرانی میں ہے
کر لیا اس نے تباہی کا سروسامان خود
آدمی اپنے گناہوں کی پشیمانی میں ہے
تھوڑا تھوڑا غم خوشی سے ہم لگا لیتے گلے
مسئلہ سارا غموں کی اس فراوانی میں ہے
اک اجالا میرے اندر ہے کسی کی یاد کا
اک ستارہ جھلملاتا اس کی پیشانی میں ہے
اس اکیلے پن میں تھوڑا خوش بھی رکھتی ہے مجھے
ایک خوشبو جو مرے کمرے کی ویرانی میں ہے
منتشر رہتی ہے ہر شے اس طرح احساس میں
جیسے دنیا اپنے ہونے کی پریشانی میں ہے